سدپارہ، پاکستان کا قابل فخر سپوت

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہونیوالے پاکستان کے قابل فخر کوہ پیما محمد علی سدپارہ پہاڑوں کے عاشق ہیں، بلند و بالا برف پوف چٹانوں کو اپنا بستر بناکر برف کی چادر اوڑھنے والے محمد علی سدپارہ کی گمشدگی کے بعد لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا خطرہ کیوں مول کیا لیکن اگر ہم ان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو پہاڑوں سے سرگوشیاں کرنیوالے سدپارہ کی پوری زندگی خطرات سے عبارت ہے۔

گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو کے ایک دور دراز سدپارہ گاؤں میں پیدا ہونیوالے سدپارہ نے ایسی زندگی بسر کی جو ہم میں سے بہت سے لوگ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ زمین کی اصل خوبصورتی کا مشاہدہ کرتا ہے،وہ خوبصورتی جو صرف نہایت ہی ہمت رکھنے والوں کے لئے مخصوص ہے۔اس نے ایسی اونچی جگہوں پر رقص کیا ، جہاں برفانی چیتے رہتے ہیں اور ایسی جگہوں پر گاناگایا جہاں سنہری عقاب اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔

محمد علی سدپارہ واحد پاکستانی ہے جس نے دنیا کی 8ہزارمیٹر سے بلند چوٹیوں میں سے آٹھ پر چڑھائی ہے اور وہ ایلکس ٹکسن اور سائمون مورو کے ساتھ مل کر پہلا انسان تھا جس نے نانگا پربت سرکیاجسے ‘قاتل ماؤنٹین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وہ لوگ جو علی سدپارہ کی کوشش کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے ’پاگل‘ قرار دے رہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پر احمقانہ سوالات اٹھانے کے علاوہ زندگی میں کچھ نہیں کیا اورجن کی زندگی میں حقیقت میں کچھ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے وہ لوگ ہر اس چیزپر تنقید کرتے ہیں جو وہ خود نہیں کرسکتے لیکن سدپارہ جیسے پاکستان کے بہادر بیٹوں جیسے لوگ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا جنون رکھتے ہیں۔

میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ساری ٹیکنالوجیز اور پیشرفت جن کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کچھ ’پاگل‘ لوگوں کی وجہ سے ہی ہیں ، انہوں نے اپنے کمفرٹ زون کو توڑ کر اور خوف پر قابو پا کر مثالیں قائم کیں اسی طرح  علی سدپارہ کوہ پیمائی کا شوق رکھتے تھے ، یہ ایسی چیز تھی جو اس کے دل کے قریب تھی۔

روسی مصنف لیو ٹالسٹائی نے ایک بار کہا تھا ،اگر ہم اعتراف کریں کہ انسانی زندگی پرحکمت عملی کے ذریعہ حکمرانی کی جاسکتی ہے تو پھر زندگی کے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں،۔ میں نے ایک بار ایک ناول ’’ شان و شوکت کے راستے ‘‘ پڑھا تھا ، یہ ایک کوہ پیما جارج میلوری کی کہانی جو پہلی بار ماؤنٹ ایورسٹ سرکرنے گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا۔

کتاب پڑھتے ہوئے مجھے تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ کوہ پیما عروج پر پہنچا ہے یا نہیں جس کی وجہ سے اس نے اپنی جان کو داؤ پر لگا دیا۔ کیونکہ نامکمل کہانی ہمیشہ تکلیف دیتی ہے۔ اس ناول میں اس شخص کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس نے ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی کے ساتھ سر کیا۔ تاہم میں نے حیرت سے پوچھا کہ اگر میلوری نے واقعتاًاس کی پیمائش کی اور اپنے راستے میں کسی حادثے کا سامنا کرنا پڑا تو ملٹری کو اپنے سربراہی اجلاس کا کریڈٹ نہ ملنا کتنا نا انصافی ہوگا۔

آج برسوں بعد میں نے محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کی کے 2 کی مہم پر غائب ہونے والی خبروں کی پیروی کرتے ہوئے وہی تکلیف محسوس کی۔ سدپارہ لاپتہ ہونے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے ان کی سلامتی کے لئے دعا کرنا شروع کردی۔ کچھ کا خیال ہے کہ سدپارہ اور اس کی ٹیم اب مر چکی ہے جبکہ کچھ معجزے کے منتظر ہیں۔ بحیثیت پاکستانی میں جانتا ہوں کہ ہمارے لوگوں کو اس کے زندہ ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم اپنے ہیرو کی شناخت تب تک نہیں کرتے جب تک کہ وہ مر نہ جائیں۔

ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ سدپارہ ہیرو تھا جس کی ہمیں کبھی شناخت نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ذکر کیا کہ وہ اپنی بیوی کے لئے سلائی مشین لیناچاہتے ہیں اور اپنے لئے کے ٹو۔ اس جملے میں ستم ظریفی بہت واضح ہے۔ یہاں تک کہ اس کے کنبہ کی مدد کے لئے کافی وسائل کی کمی ہے لیکن اسکے خواب پہاڑوں کی طرح اونچے ہیں۔

سدپارہ نے میلوری کی طرح ہی قسمت کا سامنا کیا ہوگا،یہ کتنا تکلیف دہ ہوگا ، ایک ایسی خواہش کی تکمیل کے ساتھ مرنا جو آپ کے دل سے اتنا قریب تھا اور آپ سے صرف چند فٹ کی دوری پر تھا۔

8000 میٹر اونچائی پر رہنا کتنا تکلیف دہ ہوگا کہ بچایا جائے یا مردہ ہو۔ ایک مصنف نے ایک بار کہا تھا کہ کوہ پیما پہاڑوں کے لئے زندہ رہتے ہیں اور کچھ پہاڑوں میں مر جاتے ہیں لیکن ان کا دل پہاڑوں سے جڑاہوتا ہے ‘۔
بدقسمتی سے ہم نے صرف اس وقت غور کیاجب اس کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ علی سدپارہ کو آج جو محبت مل رہی ہے وہ قابل احترام ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک لمحاتی جذباتی ردعمل ہے ،ہمیں اپنے قومی کوہ پیماؤں کی اتنی مدد کرنی چاہئے جتنی ہم اپنے قومی کرکٹرز کی حمایت کرتے ہیں۔
ہم پاکستانی اپنے پہاڑوں پر فخر کرتے ہیں اور وہ ہمارے ملک کی خوبصورتی کو متعارف کرانے کے لئے یہ پہلی نشانی ہیں۔ وہ دن کب آئے گا جب ہم اپنے کوہ پیماؤں اور پاکستان کے دوسرے ہیروز کو ان کی زندگی میں متعارف کروائیں گے؟ ہمیں بڑھتے ہوئے بے وقوفانہ سوالوں کی بجائے اپنے ہیروز کی حمایت اور ان کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے متعلقہ حکام کو ان کی سہولت ، حفاظت اور کفالت کرنا چاہئے تاکہ وہ مستقبل میں بھی قوم کو فخر کرسکے۔

Related Posts