پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 6 بلین ڈالر کے پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے جسے حکومت نے اس سال کے شروع میں معطل کردیا تھا تاہم عالمی مالیاتی ادارے نے اب تک معاشی ٹیم کے ساتھ براہ راست ملاقاتیں کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
امید ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین 15 اکتوبر کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے عہدیداروں سے ملاقات کریں گے تاہم ابھی تک شیڈول کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے جبکہ پالیسی سطح کی بات چیت کیلئے صرف چند دن باقی ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف ملاقات کے بجائے مالیاتی پروگرام کی بحالی کے لیے ورچوئل میٹنگ کرنا چاہتا ہے۔
آئی ایم ایف کے عذر کو حکومت اور مالیاتی ادارے کے درمیان تناؤ کا اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے جولائی 2019 میں 6 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن یہ پروگرام جنوری 2020 میں پٹری سے اتر گیا۔جون میں دوبارہ ٹریک سے پہلے رواں سال مارچ میں اسے مختصر طور پر بحال کیا گیا تھالیکن اس کے بعد سے کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی۔
اگلے دو ہفتے فیصلہ کریں گے کہ پاکستان ستمبر 2022 میں طے شدہ پروگرام سے باہر نکلنا چاہتا ہے یا باقی فنڈز وصول کرنے کے لیے توسیع کی ضرورت ہے۔شوکت ترین کاکہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پرعزم ہے اور امید ہے کہ آئندہ جائزہ کامیابی سے مکمل کرے گی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کی سخت شرائط میں نرمی کرے۔
شوکت ترین کاکہنا ہے کہ ٹیکس بڑھانے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے قرض سے منسلک اہداف سخت ہیں جبکہ انہوں نے گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی بھی مزاحمت کی اور حالات معمول پر آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ تصادم کے راستے پر گامزن تھے۔
یہ پروگرام کورونا وائرس وبائی امراض کے درمیان معطل کر دیا گیا جب پاکستان میں کاروبار بند اور معیشت کو مشکلات کا سامنا تھاتاہم اب صورتحال بدل گئی ہے لیکن معاشی اشارے بہتر نہیں ہوئے اور پاکستان کو فنڈز کی ضرورت ہے۔
اگر آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان کو 1 بلین ڈالر کے فنڈز مل سکتے ہیں جو مالی لیکویڈیٹی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مالی سال میں جی ڈی پی میں 4 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے کیونکہ کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو چکی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو۔