وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں جاری کورونا وائرس وبائی مرض کے باوجود معاشی استحکام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ معیشت میں بہتری کا فائدہ عام آدمی تک پہنچنا چاہئے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے، ہم یہ سن رہے ہیں کہ معیشت صحیح سمت کی طرف گامزن ہے، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھولنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کے باعث ڈالر کی قدراور قرضوں میں بھی کمی واقع ہورہی ہے، غیر ملکی ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں بہتری کی جانب گامزن ہے،ڈالر 158کے قریب پہنچ چکا ہے، حکومت اس کا سہرا مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ اور بڑھتی ہوئی برآمدات کو دیتی ہے۔
وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم کے لئے یہ اطمینان بخش ہے کہ 2020 کے وسط تک پاکستان نے جی 20 ممالک کے قرضوں سے نجات حاصل کرلی ہے۔ تاہم، حالات بدل سکتے ہیں کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام میں واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ6 بلین قرض پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے بات چیت رک گئی ہے کیونکہ وزیر اعظم نے مبینہ طور پر غیر مقبول پالیسی اقدامات متعارف کرانے سے انکار کردیا ہے۔
آئی ایم ایف بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور پالیسی شرح میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ سود کی شرح کو وبائی امراض کے دوران کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے لئے جون میں اس سال کے شروع میں 13.25 فیصد کے مقابلے میں 7 فیصد کم کیا گیا تھا۔ مگر اب اسٹیٹ بینک نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرنے کے لئے تیار ہے اور آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق سود کی شرح میں اضافہ کرسکتا ہے۔
معیشت ابھی تک بہتر نہیں ہو سکی ہے اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے اگلے سال 2 فیصد اضافے سے پہلے جی ڈی پی کو رواں سال 0.04 فیصد کامعاہدہ کرنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مرکزی بینک نے 1.5-2فیصد کے درمیان معمولی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔ حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) اور موبائل فون کی خریداری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف میں واپس آنے اور اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کی تکمیل کرنے کی ضرورت ہے جو قرضوں میں ریلیف ختم ہونے کے بعد اگلے سال نافذ ہوجائے گی۔ حکومت دوسرے عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک سے فنڈز کے حصول کی کوشش کر رہی ہے اور 1 بلین یورو بانڈ جاری کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ صورتحال نازک ہے کیوں کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا اضافہ 2018 میں 95 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2020 میں تقریباً $ 113 بلین ڈالر ہوگیا ہے۔
اگرچہ حکومت بہتر معاشی صورتحال کی تعریف کر رہی ہے، لیکن اس نے آگے آنے والے قرضوں کے جال کو نہیں دیکھا جس کے باعث معیشت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں،موجودہ جاری سیاسی منظرنامے اور اپوزیشن کے احتجاج کے باعث پاکستان ہنگامی حالات کا متحمل نہیں ہے،یہ اقدامات ہمیشہ سخت ہوتے ہیں لیکن حکومت کے پاس ایک بار پھر آئی ایم ایف کی طرف واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔