سردار عثمان بزدار کی زیرِ قیادت حکومتِ پنجاب میں نئی تبدیلی کی ہوا چلنے کے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں کیونکہ سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی قانون ساز اسمبلی میں اچانک واپسی اور جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کی تشکیل کے بعد ایسی ہی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
زیرک سیاستدان چوہدری نثار علی خان کم و بیش 3 سال بعد پنجاب اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے جن کا کہنا ہے کہ سیاسی میدان چھوڑ دینا میری غلطی تھی تاہم میں سیاسی صورتحال کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل نہیں کروں گا۔ سیاسی میدان کے کھیل میں اس نئی چال کے دوران چوہدری نثار کی واپسی کے وقت نے عوام کی توجہ حاصل کر لی۔ حکومت نیا قانون منظور کرانے کیلئے تیار ہے جس کے تحت منتخب ہونے کے بعد جو اراکینِ اسمبلی 60 روز کے اندر حلف نہیں اٹھاتے، انہیں نااہل قرار دے دیا جائے گا، تاہم یہ بات تاحال واضح نہیں کہ چوہدری نثار اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے خوف سے حلف اٹھائیں گے یا اس کے پیچھے کوئی نیا سیاسی کھیل ہے۔
پانامہ پیپرز اسکینڈل کے بعد چوہدری نثار کے ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کے ساتھ اختلافات ہوئے اور تاحال دونوں سیاسی رہنماؤں میں صلح نہیں ہوسکی۔ چوہدری نثار نے شریف خاندان سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کی 2، 2 نشستوں پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں راولپنڈی کی صوبائی نشست انہیں مل گئی۔ چوہدری نثار نے حلف اٹھانے سے تو انکار کیا لیکن نشست بھی نہیں چھوڑی۔
غیر یقینی بات یہ بھی ہے کہ تقریبِ حلف برداری کے بعد چوہدری نثار کس سیاسی جماعت کا ساتھ دیں گے اور کیا ان کی وفاداریاں بدستور ن لیگ کے ساتھ رہیں گی؟ کیونکہ ن لیگ سے چوہدری نثار 35 سالہ طویل رفاقت رکھتے ہیں جو پارٹی کے ممتاز اور مقتدر رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جہاں چوہدری نثار کا صوبائی اسمبلی میں استقبال ہونا ہے۔ کیا چوہدری نثار کو ن لیگ کی طرف سے ملا جلا ردِ عمل ملے گا یا ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا جائے گا؟ یقینی بات یہ ہے کہ چوہدری نثار صوبائی اسمبلی میں عقبی نشست پر بیٹھنا پسند کریں گے۔
قومی سطح پر منجھا ہوا سیاستدان تسلیم کیے جانے والے چوہدری نثار کا پنجاب اسمبلی کا رکن بننا یقیناً ایک تنزلی دکھائی دے سکتی ہے تاہم شریف خاندان کے ساتھ اختلافات کے بعد اطلاع یہ ہے کہ عمران خان نے چوہدری نثار خان سے رابطہ کیا اور پنجاب حکومت میں نمایاں عہدہ دینے کی پیشکش بھی کی جس سے انہوں نے انکار کردیا۔ سیاسی جلا وطنی سے واپسی کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب بزدار حکومت شش و پنج میں مبتلا ہے۔ ترین گروپ کی تشکیل اور شہباز شریف کی رہائی کے پیشِ نظر پنجاب حکومت میں تشویش پھیل چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چوہدری نثار کیا اپنی سیاسی زندگی کو بحال کرنا چاہتے ہیں یا پھر یہ اہمیت حاصل کرنے کی کوئی مایوس کن کوشش ہے؟