گزشتہ روز کراچی کے شہریوں کو ایک خوشخبری سنائی گئی کہ سرکلر ریلوے کے تحت پہلی ٹرین 19 نومبر کو چلائی جائے گی، قبل ازیں اس کی تاریخ 16 نومبر مقرر کی گئی تھی، تاہم کچھ ناگزیر وجوہات کے باعث تاخیر کی گئی۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر امکانات اس بات کے ہیں کہ 19 نومبر کی بجائے سرکلر ریلوے کی پہلی ٹرین کی تاریخ شاید مزید آگے چلی جائے، تاہم مجموعی طور پر سرکلر ریلوے کی بحالی عوام کو ایک ایسے خواب کی مانند نظر آتی ہے جو اپنی تعبیر کے قریب ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ پہلی ٹرین پپری مارشلنگ یارڈ سے چلے گی جس کا وقت صبح 7 بجے مقررکیا گیا ہے۔ آئیے منصوبے کی دیگر تفصیلات، مسائل اور کراچی کے شہریوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کی دیگر مشکلات پر غور کرتے ہیں۔
کے سی آر منصوبے کی تفصیلات
کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) منصوبے کی تفصیلات جو گزشتہ روز وزارتِ ریلوے نے جاری کیں، ان کے مطابق 19 نومبر سے سرکلر ریلوے بحالی کا آغاز ہوگا۔ افتتاحی تقریب شہرِ قائد میں ہوگی جس کے مہمانِ خصوصی شیخ رشید احمد ہوں گے۔
ابتدائی طور پر کراچی سرکلر ریلوے پپری سے لانڈھی اور پھر اورنگی تک چلائی جائے گی، ہر روز 4 ٹرینیں اورنگی اور 4 ہی پپری سے چلائی جائیں گی جن کے اوقات صبح 7 اور 10 کے ساتھ ساتھ دوپہر 1 اور 4 بجے کے رکھے گئے ہیں۔
مکمل سفر جو 60 کلو میٹر پر محیط ہے، اس کا کرایہ 50 روپے رکھا گیا ہے، آغاز میں کے سی آر کی 10 خصوصی کوچز ریلوے کیرج فیکٹری، اسلام آباد میں تیار ہوئیں۔ پاکستان ریلوے کا کہنا تھا کہ یہ بحالی کا پہلا مرحلہ ہے جو فروری سے شروع ہو کر نومبر تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
تکنیکی معلومات
رواں برس سپریم کورٹ نے ہدایات دیں کہ کے سی آر کو ہنگامی بنیادوں پر بحال کیا جائےجس پر وزارتِ ریلوے نے تیزی سے کام شروع کیا۔ سندھ حکومت بھی منصوبے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
مجموعی طور پر کے سی آر ٹریک 44 کلومیٹر طویل ہے جس میں سے 30 کلو میٹر لوپ لائن اور 14 کلو میٹر مین لائن شامل ہے جس میں کل 20 اسٹیشنز ہیں جو 15 لوپ اور 5 مین لائن پر واقع ہیں۔ ٹریک پر 24 لیول کراسنگ یا پھاٹک موجود ہیں۔
یہ منصوبہ 3 مراحل میں بحالی کی طرف بڑھ رہا ہے، پہلا مرحلہ کراچی سٹی تا اورنگی اسٹیشن 14 جبکہ دوسرا اورنگی سے گیلانی اسٹیشن تک 7 کلومیٹر طویل ہوگا۔ تیسرا مرحلہ گیلانی سے ڈرگ کالونی تک 9 کلو میٹر ٹریک پر مشتمل ہے جو بحال کیا جائے گا۔
یہاں پہلے مرحلے میں ٹریک کی بحالی کا کام جاری ہے جس میں سے 12 کلو میٹر کراچی سٹی تا منگھو پیر تک کا ٹریک مکمل طور پر بحال ہے۔ بحال کیے گئے 9 اسٹیشنز اور پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ 15 لیول کراسنگ کی مرمت کیلئے 15 اعشاریہ 25 کروڑ روپے جبکہ الیکٹریکل سگنل اور ذرائع ابلاغ کیلئے 5 کروڑ کے ٹینڈرز بھی جولائی میں جاری ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد کیرج فیکٹری کو 10 لوکوموٹو اور 40 کوچز حوالے کی گئی ہیں جن کی مرمت اور تزین و آرائش جاری ہے۔ 10 کوچز کے سی آر کیلئے تیار ہیں۔
پرانے کے سی آر نظام کی بحالی کیلئے لاگت 1 ارب 85 کروڑ روپے ہوگی جس میں ہر روز 32 ٹرینیں 16 ہزار مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچائیں گی۔ پہلی سے آخری منزل تک سارا سفر صرف 30 منٹ میں طے کیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں کے سی آر بحالی کے بعد اپ گریڈیشن ہوگی، جس پر 8 ارب 70 کروڑ 50 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ ٹرینیں 32 سے بڑھا کر 48 اور مسافروں کی گنجائش 16 سے بڑھا کر 24 ہزار کی جائے گی۔ سفر کا دورانیہ 19 منٹ ہوجائے گا۔
تیسرے مرحلے میں کے سی آر کو جدید اربن ماس ٹرانزٹ سسٹم بنایا جائے گا جس کی بنیاد پبلک پرائیویٹ پارٹننرشپ پر رکھی جائے گی۔ ٹرانزیکشن ایڈوائزری کیلئے پاکستان ریلوے اشتہار جاری کرچکی ہے۔ تینوں مراحل کم و بیش 2 سال میں مکمل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
منصوبے میں درپیش مسائل
سٹی اسٹیشن سے لے کر اورنگی ٹاؤن تک جو 14 کلومیٹر کا ٹریک ہے، وہ مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکا۔ اسٹیشنز عوام کیلئے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ اگر ٹکٹ چاہئے تو وہ ٹرین کے اندر موجود ٹکٹ چیکر سے لینا پڑے گا۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹریک کے جو راستے ہیں ان پرپھاٹک موجود نہیں، کراچی کے علاقے گلبائی اور دیگر جگہوں پر سڑکوں سے کراسنگ ایک الگ مسئلہ ہے جہاں عارضی طور پر زنجیر یا رسی کے استعمال سے ٹریفک روکی جائے گی۔
بلاشبہ رسی یا زنجیر کے استعمال سے ٹریفک روکنا حادثات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ گلبائی چوک پر 200 میٹر کا فاصلہ ٹرین کو بغیر کسی پھاٹک کے عبور کرنا ہوگا۔ کئی مقامات پر ریلوے ٹریک انتہائی مخدوش اور خطرناک بھی قرار دیا گیا ہے۔
تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ سرکلر ریلوے منصوبے کے سٹی اسٹیشن سے لے کر اورنگی تک جتنے بھی اسٹیشنز ہیں، وہ بوسیدہ اور ٹوٹے پھوٹے ہیں جنہیں استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
اورنگی ریلوے اسٹیشن دیکھیں تو وہ کھنڈرات کا عملی نمونہ محسوس ہوتا ہے، سہولیات کا فقدان، ناکافی انتظامات، ناجائز تجاوزات ہٹائے جانے کے بعد پڑا ہوا ملبہ، ٹکٹ گھروں کی عدم دستیابی اور تاحال قائم بعض تجاوزات بھی سرکلر ریلوے منصوبے میں اہم رکاوٹیں ہیں۔
جلد بازی غیر ضروری
رواں ماہ پہلے 16 نومبر کو کے سی آر کی پہلی ٹرین چلانے کا عندیہ دیا گیا اور بعد ازاں اس میں 3 روز کی توسیع کرکے نئی تاریخ 19 نومبر کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ریلوے کے سی آر منصوبے میں خود بھی پس و پیش کا شکار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے ٹرانسپورٹ کا انقلابی منصوبہ سہی، اس کی تکمیل میں اگر 2 سال کی بجائے 4 یا 6 سال بھی لگ جائیں تو کسی بھی قسم کے حادثے کے خطرے سے بچنے کیلئے وہ 6 سال لگانا ضروری ہوگا۔
یہ بات اپنی جگہ درست کہ کے سی آر منصوبے سے کراچی کے شہریوں کا قیمتی وقت بچے گا لیکن اگر کسی ایک بھی شخص کی جان گئی تو کراچی کے بچے بچے کے لب پر یہی بات نظر آئے گی کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر کے سی آر منصوبے میں عجلت سے کام لیا گیا جو غیر ضروری تھا۔
شہریوں کو درپیش آمدورفت کے مسائل اپنی جگہ، لیکن حادثات سے بچاؤ پاکستان ریلوے کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے جس کیلئے ٹوٹے پھوٹے ریلوے ٹریکس، اسٹیشنز اور دیگر اہم مسائل پر قابو پانا از حد ضروری ہے۔