افغان امن عملی کی بحالی کیلئے ایک بار کوششیں شروع کردی گئیں ہیں، گزشتہ ہفتے افغان طالبان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا، دفتر خارجہ کے حکام نے وفد کا استقبال کیا جبکہ وفد نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی۔ اس دورے کا مقصد امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زادسے ملاقات کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا تھاکیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات معطل ہونے کے بعد افغان طالبان اور امریکا ایک بار پھر امن عمل کی بحالی کیلئے کوشاں ہے۔
امریکا اور طالبان دونوں فریقین مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں تاہم دونوں کی جانب سے مطالبات بھی بڑھتے جارہے ہیں،امریکا چاہتا ہے کہ افغان طالبان سیز فائر کرکے افغان حکومت کو بھی امن عمل میں شریک کریں جس پر طالبان راضی نہیں ہیں طالبان امن مذاکرات میں طے ہونیوالے معاہدوں پر عملدرآمد کی ضمانت چاہتے ہیں۔
دونوں فریقین ایک دوسرے کو آزمانے کے ساتھ شش و پنج کا بھی شکار ہیں کیونکہ دونوں فریقین یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ امن معاہدے کے علاوہ دونوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے
طالبان جانتے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے جو مطالبات منوائے جاسکتے ہیں وہ جنگ سے کسی صورت ممکن نہیں ہے، دونوں فریقین اس بات پر رضا مند ہیں کہ معاہدے کی صورت میں طالبان امریکی فوسز پر اور امریکی افواج طالبان کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرینگے تاہم اس وقت دونوں فریقین میں سے کوئی بھی جھکائو کیلئے تیار نہیں ہے اور دونوں کی کوشش یہ کہ پاکستان آگے بڑھ کر امن عمل میں کردار ادا کرے ۔
افغانستان میں جاری جنگ نے ملک کا شدید نقصان پہنچایا ہے حالیہ صدارتی الیکشن کے ٹرن آئوٹ نے صدر اشرف غنی کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے جو کہ دوسری بار بااآسانی الیکشن جیتنے کیلئے پرجوش دکھائی دے رہے تھے،رواں ہفتے افغانستان میں جاری جنگ کو 18سال مکمل ہوجائینگے ،امریکی تاریخ کی سب سے طویل اس جنگ نے افغانستان کا نقشہ بدل دیا ہے، افغانستان میں بھوک ، بیروزگاری، بدامنی ،منشیات اور دیگر انگنت مسائل سراٹھائے ہوئے ہیں ، تعلیم کے موقع مسدود ہوچکے ہیں، افغان معیشت تباہ ہوچکی ہے۔نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہوکر افغان سے ہجرت پر مجبور ہے، لڑکیوں کیلئے تعلیم کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔اس کے باوجود افغان حکومت امن عمل میں رخنے ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، طالبان کے حالیہ دورہ پاکستان کو افغان حکومت نے سفارتی آداب کے منافی قرار دیا ہے اور پاکستان پر ایک بار پھر طالبان کی پشت پناہی کا الزام عائد کرکے مجوزہ امن عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
اس تمام صورحال میں افغان طالبان اور امریکا کے پاس مذکرات واحد راستہ ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی امن عمل کی بحالی سے اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیںتاکہ دنیا کو بتاسکیں کہ وہ امن چاہتے ہیں ۔ امریکا یہ بات جانتا ہے کہ مذاکرات سے ہی افغان مسئلے کا حل ممکن ہے اور طالبان بھی جانتے ہیں کہ کامیابی قریب ہے ناممکن نہیں اس لئے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی ناگزیر ہے۔