رواں برس اپریل کے دوران ملک کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ دیکھنے میں آیا جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 10 اپریل کے روز وزیر اعظم کے عہدے سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔
قبل ازیں کچھ سیاسی رسہ کشی بھی دیکھنے میں آئی۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ غیر ملکی سازش کو مسترد کرتے ہیں جس پر پی ٹی آئی اراکین اور وزراء نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔
عمران خان کے وزیرِ اعظم کے عہدے سے ہٹتے ہی پی ٹی آئی اراکین نے عہدوں سے استعفے دے دئیے تاہم موجودہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے ایم این ایز کے استعفوں پر جعلی دستخط ہوئے۔
آج سے 2روز قبل اپنے ایک بیان میں اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 2 سے 3 اراکین نے جعلی دستخطوں کا کہا۔ 12 سے 14اراکین نے کہا کہ وہ استعفیٰ نہیں دینا چاہتے۔ 4 سے 5 نے چھٹی کی درخواستیں دے دیں۔
سابق وزیر اعظم اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اسپیکر کیلئے اراکین کے استعفے منظور کرنا سب سے ناپسندیدہ عمل ہوتا ہے جبکہ مسائل کا حل گرینڈ ڈائیلاگ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پی ٹی آئی کے اراکین استعفے دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اگر اراکین نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی منشاء کے خلاف استعفے نہ دینے کا فیصلہ کیا تو ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ممکن ہے کہ پی ٹی آئی ایسے اراکین کو تحریکِ انصاف سے خارج کردے جس پر وہ خودبخود اپنے عہدوں سے سبکدوش ہوجائیں گے تاہم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کا مؤقف استعفوں کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔
اس سے قبل 29 جولائی کو اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحریکِ انصاف کے کچھ اراکین کے استعفے منظور بھی کر لیے تھے جن میں این اے 22 سے علی محمد خان، این اے 24 سے فضل محمد خان، این اے 31 سے شوکت علی شامل تھے۔
جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے 45 سے فخر زمان، این اے 108 سے فرخ حبیب، این اے 118 سے اعجاز احمد شاہ، این اے 237 سے جمیل احمد خان، این اے 239 سے اکرم چیمہ اور این اے 246 سے عبدالشکور شاد بھی شامل تھے۔
خواتین کیلئے مختص نشستوں سے ڈاکٹر مہر النساء، شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے تاہم جو اراکین مستعفی نہیں ہوتے، وہ مختلف حیلے بہانوں سے کام لے سکتے ہیں۔
چھٹی کیلئے درخواست دینا، یہ کہنا کہ میرے استعفے پر جعلی دستخط کیے گئے ہیں یا پھر واضح طور پر کہنا کہ ہم استعفیٰ دینا ہی نہیں چاہتے، تحریکِ انصاف کے قائدین کیلئے فکر کا مقام ہے۔
دوسری جانب اراکینِ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے سے قانون سازی سمیت دیگر سرکاری عوامل بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب اراکین کیلئے عوامی مسائل کا تدارک اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔