دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-دوسری قسط

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ادارۂ علومِ اسلامی میں جاری وفاق المدارس اور عصری تعلیم کی اس تقسیم سے یہ غلط فہمی لاحق نہیں ہونی چاہئے کہ وہاں دو الگ الگ طبقات کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ ایک طبقہ وہ جو وہاں درس نظامی پڑھتا ہے اور دوسرا وہ جو کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہم ایک ہی طبقے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ عصری تعلیم اور امتیازات اس کے درس نظامی کے ہی طلبہ کے ہیں۔ مولانا فیض الرحمٰن عثمانی اپنے تعلیمی و نصابی تصور میں بالکل واضح ہیں۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد علمائے دین تیار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ علمائے دین کی تیاری ہماری اوّل و آخر ترجیح ہے۔ وہ واضح کہتے ہیں کہ ادارۂ علومِ اسلامی اور دیگر مدارس میں فرق بس یہ ہے کہ ہمارا فاضل درس نظامی کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کا گریجویٹ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فخریہ طور پر اپنے فضلاء کو “رجال العصر” کہتے ہیں۔ یعنی یہ جس زمانے میں کھڑے ہیں اس زمانے کے تقاضوں سے آراستہ تعلیم سے مزین ہیں۔ سو اس جاری زمانے کا ایسا کوئی چیلنج نہیں جس سے نمٹنے کی یہ صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔

ادارۂ علومِ اسلامی کا یہ ذکر یوں چھڑا کہ چند ہفتے قبل اچانک کچھ مشکوک النسب قسم کے تعلیمی بورڈز وجود میں آئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس اسکیم کے پیچھے وزارت تعلیم کے لوگ رسمی طور پر تو متحرک ہیں لیکن اصل سرگرمی اس وزارت کے لوگوں کی نظر آ رہی ہے جن کا ذکر کیا جائے تو “لڑکی کے بھائی” گھروں میں گھس آتے ہیں۔ گویا جو 35 سال قبل مدارس کے طلبہ کو عسکریت کی جانب لے کر گئے تھے، وہی ایک بار پھر نئی اسکیم کے ساتھ مدارس میں دخل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تب بھی ایک سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے تھے، اور یہ آج بھی ایک سنگین غلطی کر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ ہفتے مولانا فیض الرحمٰن عثمانی سے ان کے روبرو بیٹھ کر پوچھا کہ آپ نے ان نئے بورڈز سے الحاق کیوں اختیار نہیں کیا ؟ ان کا جواب تھا:

“ہمیں اپنے فضلاء کیلئے ایک ڈگری تو وہ چاہئے جو ان کے عالم دین ہونے کی گواہی دیتی ہو۔ اور دوسری ڈگری وہ جو ان فضلاء کے عصری علوم سے آراستہ ہونے کی تصدیق کرتی ہو۔ پہلی ڈگری ہمیں وفاق المدارس سے مل جاتی ہے۔ اور دوسری ڈگری ہمارے طلبہ پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس کرکے حاصل کر لیتے ہیں۔ سو ہمیں کسی اور بورڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارا مدرسہ پاکستان کا واحد مدرسہ ہے جس کا فاضل ایچ ای سی کی ایم اے کے مساوی ڈگری کے چکر میں ہی نہیں پڑتا۔ کیونکہ ہمارے بچے تو کالج اور یونیورسٹی لیول کی تعلیم حاصل کرکے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے مین اسٹریم تعلیمی اداروں سے مقابلہ کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے میڈلز بھی حاصل کر رہے ہیں تو ہمیں کسی ایسے بورڈ کی کیا ضرورت جسے وجود میں آئے ہفتہ ہفتہ سات دن ہوئے ہیں۔ اور جس کی ڈگری اپنی حیثیت ایکولینس سرٹیفکیٹ جتنی ہوگی۔”

مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان نامی بورڈ درحقیقت کس مقصد کے تحت بنا اور اس کا مستقبل کتنا روشن ہے ؟ اس پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ پہلے ذرا یہ دیکھ لیجئے کہ اس بورڈ کا “گھر” کہاں واقع ہے اور اس کے کرتا دھرتا کس قسم کا پس منظر رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ اس بورڈ کے متولی و منتظمین دعویٰ تو یہ رکھتے ہیں کہ یہ بورڈ اپنے تحت آنے والے دینی مدارس میں دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنے کا کارنامہ انجام دے گا۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ اس کے منتظمین میں سے ایک کے پاس بھی عصری تعلیم نہیں۔ گویا قدیم و جدید کا امتزاج پیدا کرنے کی ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ہے جو جدید کے معاملے میں صرف اندھے ہی نہیں بلکہ ماضی قریب میں اس کے دشمن بھی رہے ہیں۔ اقبال نے علی گڑھ یونیورسٹی کے اساتذہ سے متعلق کہا تھا:

میں ہوں نو مید تیرے ساقیانِ سامری فن سے
کہ بزمِ خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و داماں میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی

برٹش دور کی علی گڑھ یونیورسٹی اور اس نئے بورڈ کی انتظامیہ میں بس یہی فرق ہے کہ ان کی آستیں میں پرانی بجلیاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ یہ بجلیاں ماضی قریب میں عسکری و فرقہ پرست تنظیموں کی سرپرستی کی صورت آشیانہ بھی جلاتی رہی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تباہی کے دیوتاؤں کو “تعمیر” کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ یہ تصور ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اسپین کے مشہور زمانہ بل فائٹنگ بیلوں سے ہل جوتنے کا خواب دیکھے۔ جو جامعۃ الرشید اس نئے بورڈ کا گھر بنا ہے اس کی تاریخ ہی ان لوگوں کو کسی تعلیمی اصلاحی منصوبے کے لئے نااہل ثابت کرنے کو کافی ہے۔

جامعۃ الرشید مفتی رشید احمد مرحوم کے دارالافتاء و الارشاد نامی ادارے کی ایکسٹینشن ہے۔ میں 90 کی دہائی کے اوائل میں ایک بار وہاں مفتی رشید احمد کے دستِ راست مفتی عبد الرحیم سے ملنے گیا تو انہوں نے فرمایا، سنا ہے تمہارے گھر پر فون لگ گیا ہے ؟ یہ وہ زمانہ تھا جب دادا پی ٹی سی ایل لینڈ لائن کے لئے درخواست دیتا تو پوتے کے دور میں فون لگتا۔ چنانچہ اہم معاملہ تھا۔ میں نے فون لگنے کی تصدیق کی تو مفتی عبدالرحیم صاحب نے نمبر مانگ لیا تاکہ رابطے کی سبیل بن سکے۔ میں نے فون نمبر کے ہندسے انگریزی میں بتانے شروع کئے تو ان کی زبان سے بے اختیار “استغفراللہ” نکل گیا۔ میں نے چونک کر اس کا سبب پوچھا تو فرمایا “حرام ہے۔” عرض کیا “گھر پر فون لگوانا ؟” تو جواب ملا “ہندسے انگریزی میں بتانا۔” یکدم خیال آیا کہ میں تو اس ادارے میں بیٹھا ہوں جہاں اردو گفتگو میں انگریزی لفظ کے استعمال پر بھی لوگ بے عزت کر دئے جاتے ہیں۔ چنانچہ جلدی سے معذرت کرکے اپنے فون نمبر کے ہندسے اردو میں بتا دئیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ادارے میں اخبارات کا داخلہ بھی حرام تھا کیونکہ ان میں تصاویر اور جھوٹ شائع ہوتا ہے۔ تصویر اس ادارے میں صرف قائد اعظم کی ہی داخل ہوسکتی تھی مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ تصویر چندے کے نوٹوں پر ہو۔ اسی طرح اس ادارے کی دینداری کا ایک اور معیار یہ تھا کہ باجماعت نماز کے لئے کوئی داڑھی منڈھا پہلی صف میں کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے نااہل تھا۔ پہلی صف پر صالحین کا حق تھا۔ فساق و فجار کے لئے یہ صف “ممنوعہ علاقہ” تھا۔

صرف حضرتِ والا اور ان کے خلفاء ہی نہیں بلکہ پورچ میں کھڑی حضرتِ والا کی شیورلیٹ کار بھی اس قدر پاک دامن تھی کہ ہم جیسا فاسق اگر گزرتے ہوئے چھو لیتا تو کار کا مقدس دامن داغدار ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے گستاخ کو تب تک ادارے کی حدود سے نکلنے نہ دیا جاتا جب تک وہ اس سنگین گناہ کا کفارہ پانچ روپے جرمانے کی صورت ادا نہ کر دیتا۔ شرعی مسائل سے متعلق حضرتِ والا کی حساسیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جامعہ فاروقیہ کے جریدے “الفاروق” میں ایک شرعی مسئلہ حضرت کے ذوق تفقہ کے خلاف چھپ گیا۔ اس پر حضرتِ والا نے مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کو فون کرکے فرمایا “آئندہ ہمارے پتے پر الفاروق نہ بھیجا کیجئے۔ اور اگر بھیجیں تو ماچس بھی ساتھ بھیجا کیجئے” یہ واقعہ ہمارے دورِ طالب علمی میں حضرتِ والا کے ایک حاضر سروس مرید نے ہی کلاس میں دورانِ سبق فخریہ سنایا تھا۔ حضرتِ والا کی حاکمیت کا عالم یہ تھا کہ لوگوں کے وہ نام تک تبدیل کروا دیا کرتے جو ان کے ماں باپ نے رکھے ہوتے۔ چنانچہ جو اس ادارے میں مفتی زرین کے نام داخل ہوئے تھے، وہ جلد مفتی محمد بن گئے، اور جو مفتی طاہر شاہ ہوا کرتے تھے وہ اب مفتی ابولبابہ شاہ منصور کہلاتے ہیں۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مفتی رشید احمد صاحب کا یہ “دین پور” مفتی عبد الرحیم، مفتی محمد اور مفتی ابو لبابہ کی معاونت سے ہی چلتا رہا۔ اور یہ تینوں اس پالیسی پر سوال اٹھانے والے کو ایمان کی کمزوری کے طعنے دیا کرتے تھے۔

آج انہی تینوں کی سرپرستی میں جے ٹی آر کس دھوم دھام سے تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار کرتا ہے، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ آج اسی ادارے میں ڈاڑھی منڈھے سرکاری افسروں کے کس عقیدت سے بوسے لئے جاتے ہیں، یہ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ آج اسی ادارے میں فساق و فجار کی تنخواہیں صالحین سے کئی گنا زیادہ کیوں ہوتی ہیں، یہ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ آج فون نمبر کے ہندسے انگریزی بتانا تو چھوڑئیے، اس ادارے کی ویب سائٹ ہی انگریزی میں کیوں ہے ؟ یہ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ آج فساق و فجار کو سالانہ تقریب میں “مہمانِ خصوصی” کا رتبہ کیوں دیا جاتا ہے ؟ یہ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ لیکن جب اس قدر کھلا تضاد چل رہا ہو تو ایمان کی سلامتی کی دُعا مانگتے ہوئے اتنا پوچھنے کا حق تو رکھتا ہی ہوں کہ ایک ہی ادارے میں 180 ڈگری کے فرق کے ساتھ بانی اور اس کے خلفاء دونوں کا چلن درست نہیں ہوسکتا۔ سو یہ سوال تو بنتا ہے کہ جو مفتی رشید احمد کرتے رہے وہ غلط تھا، یا وہ غلط ہے جو آپ تینوں کر رہے ہیں ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جسے مفتی رشید احمد حرام کہتے رہے ہوں، اسے آپ حلال کر لیں اور ہوں بھی دونوں ہی درست ؟ یہ شریعتِ مطہرہ ہے یا گھر کی مرغی کہ جب جی کیا پالنے کا فیصلہ کر لیا، اور جب جی چاہا ذبح کردی۔ حلال و حرام کی یہ بحث یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اصل حرام کا ذکرِ خیر تو اگلی سطور میں آرہا ہے۔ وہ حرام جسے فقہاء کے اجماع کے حوالے کے ساتھ ذکر کرکے حضرتِ والا نے وصیت فرما رکھی ہے کہ جس نے بھی اس حرام کا ارتکاب کیا وہ جامعۃ الرشید سے واجب الاخراج ہوگا۔ اور اس وصیت کی رُو سے مفتی عبد الرحیم، مفتی محمد اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور تینوں جامعۃ الرشید سے واجب الاخراج ہوچکے ہیں۔ (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیں: دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-پہلی قسط

Related Posts