دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-آخری قسط

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعۃ الرشید کے اسی تعارف میں حضرت والا کی 10 ہدایات تو خود مفتی عبد الرحیم اپنے قلم سے نقل کرتے ہیں جبکہ لگ بھگ اتنی ہی ہدایات و شرائط خود حضرت والا :بھی بلا تسلسل رقم فرماتے ہیں اور تعارفی کتابچے کا خاتمہ اس وصیت پر کرتے ہیں

“حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالی نے بالاجماع واقف (وقف کنندہ) کی طرف سے عائد کردہ شرط کی پابندی کو نص قرآن کی طرح لازم و مؤکد قرار دیا ہے۔ لہذا جامعہ کے ہر فرد پر ہدایاتِ مذکورہ کی پابندی فرض اور کسی ہدایت کی خلاف ورزی حرام ہے۔ منطق فلسفہ جیسی خرافات کیلئے عمارت وقف کا استعمال، طلبہ کی خوراک، وظیفہ اور اساتذہ کی تنخواہ ویسے ہی جائز نہیں، پھر شرط واقف کے بعد تو ان ہدایات مذکورہ کی حرمت مزید مؤکد ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی فرد ہدایات مذکورہ میں سے کسی ہدایت سے کسی قسم کا استنکاف، یا انکار کرے گا، یا کسی ہدایت کے حق و صواب ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کا صراحۃََ یا دلالۃََ اظہار کرے گا تو وہ واجب الاخراج ہوگا۔ “

تحریر کی غیر ضروری طوالت سے بچنے کے لئے حضرت والا کی ہدایات نقل کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس کتابچے کا پی ڈی ایف لنک کالم کے ساتھ ہی شیئر کردیا جائے گا تاکہ جملہ ہدایات سے قارئین کو آگہی ہوسکے۔ یہ کتابچہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت والا نے یہ جامعہ اسی درجے کے متشدد علماء تیار کرنے کی غرض سے قائم کرنے کی اجازت دی تھی جس درجے کے متشدد وہ خود تھے۔ وہ کتنے متشدد تھے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ وہ جماعت اسلامی والوں سے نکاح جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح کے بے شمار متشددانہ فتووں سے ان کا احسن الفتاوی بھرا پڑا ہے۔ سو وہ یہ ادارہ ہی ایسے علماء کی تیاری کیلئے بنا رہے تھے جو انہی کے طے کردہ حلال و حرام والے معیار کے پابند ہوں۔ جس کا وہ یہ کہہ کر صاف اظہار کرتے ہیں کہ اس جامعہ کی تعمیر کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ جو جامعات پہلے سے موجود ہیں وہ میرے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ ان کا تربیت علمیہ و عملیہ کا نظام ناقص ہے۔ جس کا اظہار اس بات سے بھی ہوجاتا ہے کہ کراچی میں ہزارہا جید علماء کی موجودگی کے باوجود حضرت والا کو اپنے معیار کا وصی ملنے میں بائیس سال لگ گئے۔ اور وہ بھی شدید دعاؤں کے بعد ملا۔ اگر یہ دعا قبول نہ ہوئی ہوتی تو حضرت والا تو ہزاروں لاکھوں علماء کی موجودگی کے باوجود لا وارث ہی رہ جاتے۔ اب ایسے میں جب وہی وصی حضرات والا کے پورے فلسفہ حیات کی ہی اینٹ سے اینٹ بجا دے تو پیچھے بچا صرف “واجب الاخراج” ہونا۔

جامعۃ الرشید میں ہونے والا تعلیمی کام کتنا معیاری ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اس کی ویب سائٹ سارا ڈھول “کلیۃ الشریعہ” کا پیٹتی ہے۔ حتی کہ جامعۃ الرشید کی ویب سائٹ ہے ہی اس نام سے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جامعۃ الرشید کے سوشل میڈیا پیجز بھی صرف اسی کلیۃ الشریعہ کی سرگرمیوں سے ہی بھرے پڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کا یہ کلیۃ الشریعہ ہے کیا چیز ؟ یہ ایک طرح سے درس نظامی کی وہ چار سالہ تلخیص ہے جو یہ ان چند محدود طلبہ کو پڑھاتے ہیں جو یونیورسٹیز سے گریجویشن کرچکے ہوں۔ اور ان کا یہ کلیۃ الشریعہ سرے سے وفاق المدارس تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اور نہ ہی وہ انہیں ڈگری دیتا ہے۔ جبکہ اس کے طلبہ کی دینی علوم میں علمی استعداد کے نہایت ناقص ہونے کی گواہیاں ہر جانب سے آرہی ہیں۔ کیا یہ فضلاء ادارہ علوم اسلامی کے فضلاء کا دینی علوم میں مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ درس نظامی کا گیارہ سالہ کورس پڑھتے ہیں جبکہ یہ صرف چار سالہ۔ اب لے دے کر ان کے پاس وہ عصری تعلیم ہی بچ جاتی ہے جو جامعۃ الرشید کی دین ہی نہیں بلکہ معاصر کالجز و یونیورسٹیز سے حاصل کی گئی ہے۔ اور خود جامعۃ الرشید کے منتظمین کہتے ہیں کہ انہوں نے نئے بورڈ کی راہ اس لئے اختیار کی ہے کہ وفاق المدارس ان کے کلیۃ الشریعہ کے فضلاء کو ڈگری نہیں دیتا۔ یوں گویا جس کمتر معیار کو وفاق المدارس اپنی ڈگری کا اہل ہی نہیں سمجھتا یہ اس کے لئے مجمع العلوم الاسلامیہ نامی بورڈ تشکیل دینے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بورڈ جن طلبہ کو ڈگری دے گا ان کی اہلیت وفاق المدارس کے طلبہ سے انتہائی کمتر درجے کی ہوگی۔ سو اندازہ لگا لیجئے کہ اس ڈگری کی اوقات کیا ہوگی؟ جہاں بھی یہ ڈگری “علوم اسلامیہ” کے حوالے سے وفاق کی ڈگری کے سامنے آئے گی، ناک آؤٹ ہوجائے گی۔

اب آجائیے ایک اور اہم سوال کی جانب، اور وہ یہ کہ جامعۃ الرشید قائم کرنے کی اجازت تو ان کے حضرت والا نے وفاق المدارس کے تحت چلنے والے مدارس سے بھی اعلی معیار کی تعلیم و تربیت کی غرض سے دی تھی تو جامعۃ الرشید کا یہ سارا دھوم دھڑکا وفاق المدارس کے مروجہ معیار سے بھی بہت کمتر درجے پر کیوں پہنچا دیا گیا؟ اتنا کمتر کہ وفاق کی ڈگری کا ہی اہل نہیں۔ اور اس پر یہ اتنا فخر کس خوشی میں فرمایا جا رہا ہے؟ قابل غور بات یہ ہے کہ ان کا جو ریگولر درس نظامی ہے اس کے طلبہ کو وفاق المدارس ڈگری دیتا تھا۔ لیکن حیران کن طور پر اس ریگولر درس نظامی والے طلبہ اور ان کی سرگرمیوں کا نہ تو ان کی ویب سائٹ پر کوئی ذکر نظر آسکا، اور نہ ہی ان کے سوشل میڈیا پیجز ان کی کوئی خبر دیتے ہیں۔ گویا خود ان کے اپنے پروپیگنڈے میں بھی وہ سرے سے کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ کیا وہ بچے درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصری علوم حاصل کرتے ہیں؟ کچھ خبر نہیں۔ ان کے جتنے افراد سے پوچھا اتنے ہی الگ دعوے سننے کو ملے۔ اگر یہ ریگولر درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم کا کوئی نظام رکھتے تو اسے تو فخریہ پیش کرنا چاہئے تھا۔ نہ اس حوالے سے ان کا نصاب مل سکا، نہ نظام الاوقات دستیاب ہوسکا  اور نہ ہی کوئی ایسا سالانہ نتیجہ جو یہ بتاتا ہو کہ ان کے ریگولر درس نطامی والے طلبہ نے عصری علوم کے امتحانات میں کیا کار کردگی دکھائی ؟ اور یہ امتحانات حکومت پاکستان کے کس تعلیمی بورڈ سے دئیے گئے ؟ یہاں تک کہ فیڈرل یا سندھ بورڈ سے ان کے الحاق کا کوئی دعویٰ بھی نظر نہیں آیا۔ ہاں اس ریگولر درس نظامی کے حوالے سے کچھ اور ہی پہلو دکھاتی ایک دلچسپ چیز ضرور موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے مفتی ابو لبابہ کا 2010ء میں شائع شدہ بارہ صفحات کا ایک مضمون پورے شد و مد کے ساتھ درس نظامی کے ساتھ عصری علوم کی شمولیت پر شدید تنقید لئے ہوئے ہے۔ وہ پورے دھڑلے کے ساتھ دینی و دنیوی تعلیم کے حسین امتزاج پر “حسین پچکاری” کی بھپتی کستے نظر آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس مضمون میں ادارہ علوم اسلامی کے “رجل العصر” پر طنز کسنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ اور اپنے حضرت والا ہی کی طرح مبالغۃ الآرائی کا پہاڑ کھڑا کرتے ہوئے “طویل عرق ریزی” جیسی اصطلاحات کا سہارا لے کر دعوے فرماتے نظر آتے ہیں۔ وہ :ایک جگہ لکھتے ہیں

“راقم فقط اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر ایسے بیسیوں فاضلانِ گرامی سے ملاقات و انٹرویو کرچکا ہے جو اگر خالص دینی تعلیم تک محدود رہتے اور اپنے دینی مطالعے کو ترقی دیتے تو بہت اچھے داعی بن کر احیاء اقامت دین کی کوششوں میں قابل قدر حصہ ڈال سکتے تھے۔ لیکن وہ اس “حسین پچکاری” کی زلف گہر گیر (درست، زلف گرہ گیرہے- ناقال) کے اسیر ہوگئے تو پھر کہیں کے نہ رہے۔”

یہ فقط ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے ورنہ انہوں نے اس موضوع پر بارہ صفحات سیاہ کرکے اسی وفاق المدارس کے جریدے میں شائع کروائے ہیں جس کے مقابل اب یہ مجمع العلوم الاسلامیہ کے نام سے خود “حسین پچکاریاں” مارنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ گویا ان حضرت کی ساری طویل عرق ریزیاں گئیں چولہے میں۔ اور اب یہ خود طلبہ کو ان حسین پچکاریوں کا شکار کرکے اس مقام پر پہنچائیں گے جہاں خود ان کے بقول وہ پھر کہیں کے نہ رہیں گے۔ یاد رہے یہ وہی ابو لبابہ ہیں جنہیں سوشل میڈیا ڈاکٹر شاہد مسعود اور اوریا مقبول جان جیسے “دجال فیمز” کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ موصوف نے باقاعدہ کتاب لکھ کر 2012ء میں دجال کو منظر عام پر لانے کی کوشش فرمائی مگر کمبخت نے ظاہر ہونے سے صاف انکار کردیا۔ یوں بقول ایک راوی کے جب ان سے پوچھا گیا کہ دجال کیوں نہیں آیا ؟ تو فرمایا “حساب کتاب میں غلطی ہوگئی، اصل سال 2021ء تھا مگر میں 2012ء سمجھ بیٹھا” اب 2021ء بھی آگیا ہے، اس سال کے ا ب تک کے چھ ماہ میں تو جامعۃ الرشید سے مجمع العلوم الاسلامیہ ہی ظاہر ہوا ہے۔ اگر یہی دجال کا کوڈ نام ہے تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔

یہ حضرات فریب کے لئے کیسے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ جب دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت کے خلاف تھے تو حوالے کے طور پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور سید سلیمان ندوی کو پیش کرتے تھے۔ اب خود حسین پچکاریاں مارنے نکلے ہیں تو یکایک شیخ الہند اور شاہ ولی اللہ ان کے آئیڈیل بن گئے ہیں۔ کیا شاہ ولی اللہ اور شیخ الہند نے جرنیلوں کے تلوے چاٹے تھے ؟ اور پھر یہ جھوٹ کی انتہاء کرتے ہوئے دعویٰ فرما تے ہیں کہ دینی و عصری علوم کے حسین امتزاج کا جو بیڑا ہم نے مئی 2021ء میں اٹھایا ہے یہ ڈھائی سو سال میں پہلی مرتبہ ہونے جا رہا ہے۔ اتنا صریح جھوٹ اور وہ بھی ان کی جانب سے جو 90 کی دہائی میں خود کو صغائر سے بھی پاک باور کروا رہے تھے۔ اگر ڈھائی سو سال میں پہلی بار یہ کارنامہ صرف آپ انجام دے رہے ہیں تو پھر ادارہ علوم اسلامی پچھلے 35 سال کیا کرتا رہا ہے ؟ اس کے طلبہ نے 56 میڈلز کیا کبڈی کے مقابلوں میں حاصل کئے ہیں ؟ اس کے 228 طلبہ کو فیڈرل بورڈ نے ٹھمکے لگانے کی تربیت کیلئے 82 لاکھ روپے کی اسکالرشپس دی تھیں ؟ اتنا جھوٹ ؟ اتنا فریب ؟ بخدا خواجہ آصف کا قول زریں یاد آرہا ہے۔ مگر اس خوف سے دہرا نہیں سکتا کہ سال بقیہ چھ ماہ کے دوران اگر دجال ظاہر ہوگیا تو سب سے پہلے مجھ ناچیز کی ہی گردن دبوچ لے گا، اور پوچھے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بجائے مجھ مسمی مسیح دجال کے منتظر لوگوں کی توہین کی جرات کیسے کی ؟

یہ بات عرض کی جاچکی کہ ان کے ریگولر درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم کی کار کردگی کا کوئی پرچار موجود نہیں۔ سارا ڈھول بس کلیۃ الشریعہ کا ہی پیٹا جاتا ہے۔ یعنی یہ اس بات کے تو قائل نظر آتے ہیں کہ یونیورسٹی کے طلبہ کودرس نظامی کی تلخیص پڑھائی جائے لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ درس نظامی کے طلبہ کو عصری علوم پڑھائے جائیں۔ مفتی ابو البابہ کی تحریر تو یہی ثابت کرتی ہے۔ سو اگر ان کا کل جہان صرف کلیۃ الشریعہ ہی ہے اور اس کے لئے وفاق المدارس کے متوازی ایک ایسا بورڈ لیا گیا ہے جس کی ڈگری ہوگی بھی “ایم اے کے مساوی” یعنی ماسٹرز کی خالص ڈگری نہ ہوگی بلکہ فیس بک پر فروخت ہونے والے فارمی شہد کی طرح کی ہی “فارمی ڈگری” ہوگی تو اس سے بڑا خسارے کا سودا کوئی اور ہو نہیں سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خسارے کے اس سودے کی ضرورت کیا تھی ؟ سو ہم بتاتےہیں کہ انہوں نے خسارے کا یہ سودا اس لئے قبول کیا ہے کہ اس بورڈ کا مقصد سرے سے تعلیمی ہے ہی نہیں۔ یہ ایک صریح فریب دے رہے ہیں۔ فی الحقیقت اس منصوبے کے سارے مقاصد سیاسی ہیں۔ اگر اس کا عصری تعلیم سے دور کا بھی کوئی واسطہ ہوتا تو یہ ایسے مدرسے کا الحاق کرتے جہاں صرف حفظ و ناظرہ قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے ؟

آیئے اس واردات کو سمجھتے ہیں جو یہ تین مفتی “تسمہ ِ بوٹ” بن کر انجام دینے جا رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک پر اس وقت ایک ہائبرڈ نظام مسلط ہے، جس کے لئے عمران خان کے 2014ء والے لانگ مارچ سے ہی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ اور ایک منتخب وزیر اعظم پر پناما کا کیس بنا کر اقامے پر سزا دی گئی۔ اور ملک پر سیاسی میدان کے عبد الرحیم و لبابے مسلط کئے گئے۔ ان سیاسی لبابوں نے بھی ملکی معیشت و نظام کا وہی حشر کیا جو روحانی لبابے اپنے شیخ کے نظام کا کرچکے۔ ہائبرڈ نظام کے پیچھے کھڑی طاقتوں کا پہلا ہدف ہی یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کو کریش کیا جائے جو مفتی عبدالرحیم و، مفتی محمد اور مفتی ابو لبابہ کی طرح غلامی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لبابوں کی طرح انہیں چومنے چاٹنے کے بجائے ان پر تنقید کرتی ہیں۔ حتی کہ وہ اس صحافت کو بھی تہس نہس کرنے کے درپے ہیں جو جے ٹی آر جیسے ڈھکوسلے کی طرح ریاست پودینہ میں دودھ، شہد کی نہریں نہیں دکھاتا۔ آج سی پیک سے لے کر قطر سے ایل این جی کی ڈیل تک ملک کے ہر شعبہ حیات میں ان کا دخل بالکل عیاں ہوچکا۔ سو اسی پس منظر میں مسلم نون کی طرح علماء کی سیاسی جماعت جے یو آئی بھی ایک اہم ترین ہدف ہے۔ اور اسی ہدف کے خلاف لبابوں کا سہارا لیا گیا ہے۔

خود مفتی محمد کہہ چکے ہیں کہ” گزشتہ چند سالوں میں وفاق المدارس کے طلبہ کو ریاستی اداروں کے مقابل کھڑا کیا گیا ہے”۔ ان کا یہ اشارہ جمعیت علمائے اسلام کی ان سیاسی سرگرمیوں کی جانب ہے جو اس نے موجودہ ہائبرڈ رجیم کے خلاف اختیار کر رکھی ہیں۔ ذرا تماشہ دیکھئے کہ جو لوگ خود ریاستی اداروں کے مقابل مسلح جھتے کھڑے کرتے رہے ہیں۔ اور جن کے مدرسے میں حکیم اللہ محسود کے دہشت گرد بطور استاد موجود رہے ہیں، انہیں آج دوسروں کی آئینی، قانونی و اخلاقی جمہوری سرگرمیوں پر اعتراض ہے۔ اور یہ اعتراض بھی صرف اس لئے کہ خود یہ پورا ادارہ پی ٹی آئی کا سرگرم سپورٹر ہی نہیں بلکہ ووٹر بھی ہے یعنی یہ مدرسہ کم اور یوتھواڑہ زیادہ ہے۔ ذرا مفتی محمد و جملہ رشیدی لبابوں کے سروں پر قرآن رکھ کر پوچھا جائے کہ انہوں نے 2018ء میں ووٹ کس جماعت کو دئے تھے ؟ حقیقت سامنے آجائے گی۔ جامعۃ الرشید کا منصوبہ تشکیل دیتے وقت تو بڑی ڈینگیں ماری گئی تھیں کہ فساق و فجار حکام سے تعلق رکھنا ناجائز ہے۔ ہمیں سرکار کی زمین نہیں چاہئے کیونکہ اس کے لئے فساق و فجار حکام سے روابط پیدا کرنے پڑیں گے۔ اور اب فساق و فجار کی جماعت کو ووٹ دینا اور علماء کی سیاسی جماعت کا راستہ روکنے کے لئے وفاق المدارس سے بغاوت فرض ہوگئی ؟اور فساق و فجار کی اس جماعت کی حمایت بھی صرف اس لئے کہ جو تیس سال سے آپ کی پشت پر کھڑے ہیں وہی فساق و فجار کی اس جماعت کے بھی پشتیبان ہیں۔

گویا مجمع العلوم الاسلامیہ نامی بورڈ در حقیقت اسٹیبلیشمنٹ کے اہداف حاصل کرنے اور علماء کی سیاسی قوت کو توڑنے کی غرض سے ہی بنایا گیا ہے۔ یوں گویا یہ تینوں مفتی اسی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں جس تھیلے میں پہلے سے پی ٹی آئی، پاک سرزمین پارٹی، باپ، پیپلز پارٹی، اے این پی، طارق جمیل اور وینا ملک پھدک رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ان کا جے ٹی آر قادیانیت والے مسئلے میں بھی عمران خان کی حمایت کا کارنامہ انجام دے چکا ہے۔ جامعۃ الرشید کے یہ نام نہاد مفتی تو خیر سے ہیں ہی فقط آلہ کار ،سو ریموٹ پر چلنا ان کی مجبوری ہے۔ لیکن راولپنڈی کے جن شہ دماغوں کا یہ خیال ہے کہ نیا بورڈ بنانے سے جے یو آئی کمزور ہوجائے گی ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مدارس میں سیاسی سرگرمیوں پر پہلے ہی خود مدارس کی جانب سے ہی پابندی ہے۔ اس کے طلبہ جب کوئی سیاسی سرگرمی کرنا چاہتے ہیں تو صرف چھٹی والے دن ہی کرسکتے ہیں۔ اور یہ سرگرمی بھی وہ مدارس کی حدود کے باہر کرتے ہیں۔ آپ کا یہ نیا بورڈ ان سرگرمیوں کی روک تھام کیسے کرے گا ؟ کیا مفتی محمد، مفتی ابو لبابہ اور مفتی عبد الرحیم لٹھ لے کر جمعت علمائے اسلام کے جلسوں میں گشت فرمایا کریں گے ؟ اگر کسی کے دل سے اس کے قائد کی محبت کو نکالا جاسکتا تو آپ خود نون لیگیوں کے دل سے نواز شریف کو نکال نہ چکے ہوتے ؟ اگر خود آپ کسی کے دل سے نواز شریف کو نہ نکال سکے تو یہ لبابے کسی کے قلب سے فضل الرحمن کو کیا نکال پائیں گے ؟ پھر قابل غور بات یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی طاقت اس کے ووٹر ہیں۔ کیا یہ جماعت مدارس کے طلبہ کے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچتی ہے ؟ کیا خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قومی و صوبائی اسمبلی کے ایک ایک حلقے میں مدارس کے طلبہ کی صورت ستر ستر ہزار ووٹرز موجود ہیں ؟ خود مولانا فضل الرحمن کے آبائی حلقے میں بھی ستر چھوڑئے دینی مدارس کے پانچ ہزار بالغ و نابالغ طلبہ بھی نہ ہوں گے۔ اگر پنڈی کے کسی مفقود العقل کا یہ خیال ہے کہ فضل الرحمن کے لانگ مارچ کے شرکاء کراچی کے مدارس کے طلبہ تھے تو ذرا بتائے تو سہی کہ اس لانگ مارچ کے دوران کونسا مدرسہ خالی ہوگیا تھا ؟اور کس مدرسے میں تعلیم رک گئی تھی ؟ عین لانگ مارچ کے ایام کے حاضری رجسٹر چیک کر لئے جائیں۔ حقیقت خود سامنے آجائے گی۔ اس طویل تحریر کا حرف آخر یہ ہے کہ جامعۃ الرشید صرف پنڈی سے ملنے والے اہداف پورے کرنے کی غرض سے بنایا گیا ادارہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بندوق اٹھاؤ تو یہ بندوق اٹھاتے ہیں، وہ کہتے ہیں تعلیمی بورڈ بنا کر جے یو آئی کا سیاسی زور توڑو تو یہ وہ مشن بھی سنبھال لیتے ہیں۔ یعنی ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بس بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔ مدارس عربیہ کا جو بھی طالب علم بھاڑے کے ان ٹٹوؤں کے فریب میں آیا اس کے ہاتھ آخر میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہ آئے گا۔ یہ ایک نسل تباہ کر چکے، یہ ایک نسل تباہ کرنے جا رہے ہیں۔ (ختم شد)

یہ بھی پڑھیں: دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-چوتھی قسط

Related Posts