راولپنڈی رنگ روڈ کیس

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

راولپنڈی رنگ روڈ کیس نے ایک بار پھر حکمراں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کو پریشان کردیا ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم عمران خان پہلے ہی اس کی مکمل تحقیقات کی ہدایت کرچکے ہیں تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ تحقیقاتی رپورٹس وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار اور ان کے مشیرِ مالی امور ڈاکٹر سلمان شاہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیرِ ہوابازی غلام سرور خان اور معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز زلفی بخاری پر 2 اعشاریہ 5 ارب روپے کی کرپشن کا الزام سامنے آنے کے بعد یہ کیس مزید اہم ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں زلفی بخاری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جبکہ غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں اور میرے اہلِ خانہ زندگی بھر کیلئے سیاست چھوڑ دیں گے۔

بہرحال رنگ روڈ منصوبے کے آس پاس زلفی بخاری کی کسی بھی اراضی یا ملکیت کے متعلق کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ بدقسمتی سے وزیرِ اعظم کے قریبی ساتھیوں پر متنازعہ کیسز کے معاملے میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی معمول کی کارروائی بن چکی ہے۔

وزیرِ اعظم آفس تک دو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس پہنچ چکی ہیں جن میں سے ایک کمشنر جبکہ دوسری ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے تیار کی۔ دوسری رپورٹ یہ اشارہ کرتی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی منظوری سے پراجیکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں جس میں ان کے مالی مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ بھی شامل تھے۔

حقائق کی تلاش کیلئے تحقیقاتی عمل سے بھی متعدد سوالات نے سر اٹھایا، مثال کے طور پر کمشنر راولپنڈی نے تنِ تنہا تحقیقاتی رپورٹ پر دستخط کیوں کردئیے جبکہ تحقیقاتی کمیشن کے 2 دیگر ممبران نے دستخط سے انکار کردیا تھا جن میں ڈی سی راولپنڈی کیپٹن (ر) انوار الحق اور ایڈیشنل کمشنر راولپنڈی شامل ہیں۔ مذکورہ افراد نے ایک علیحدہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کر لی۔

کمشنر کی رپورٹ میں کچھ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام آتے ہیں جو اصل رنگ روڈ منصوبے سے دور ہیں لیکن انہیں منصوبے میں کی گئی تبدیلیوں سے فائدہ پہنچا۔رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود اور معطل لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کیلئے حاصل شدہ اراضی کیلئے 2 اعشاریہ 3 ارب روپے ناجائز طور پر ادا کیے اور سنگجانی کے ایک معروف کنبے کو اس کی زمین سے غیر قانونی فائدہ پہنچایا گیا۔

منصوبے کے ذریعے فائدہ اٹھانے والی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بریگیڈ ہو یا اقتدار میں شامل سرکاری افسران، اس کیس میں جس کسی کا جرم ثابت ہو، اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے کیونکہ قانون کی بالادستی اور احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ 

 

Related Posts