ڈرامہ ”رقیب سے“ نے ثابت کیا کہ منفردکہانی والے ڈاراموں کو کسی گلیمر کی ضرورت نہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈرامہ ”رقیب سے“ نے ثابت کیا کہ منفردکہانی والے ڈاراموں کو کسی گلیمر کی ضرورت نہیں
ڈرامہ ”رقیب سے“ نے ثابت کیا کہ منفردکہانی والے ڈاراموں کو کسی گلیمر کی ضرورت نہیں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: اداکار نعمان اعجاز کا ڈرامہ ”رقیب سے“ ایک اچھی کہانی اور سوچنے سے تعلق رکھنے والا ڈرامہ ہے، جس میں جذبات اور احساسات کے حوالے ایک اچھی کہانی ہے۔ پہلی قسط سے اندازہ نہیں ہوپایا تھا کہ یہ ڈرامہ ایسا ہوگا۔

آرٹ کا شاہکار مقصود صاحب کے حصے میں آیا، جبکہ نعمان اعجاز کی اہلیہہاجرہ (ثانیہ سعید)، ان کی بیٹی انشا (فریال محمود)ان کی سابقہ محبت سکینہ (حدیقہ کیانی) اور ان کی بیٹی امیرا کا کردار (اقرا عزیز) نے ادا کیا۔

مجموعی طور پر دیگر ڈراموں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ”رقیب سے“ نے ناظرین کو حیرت میں مبتلا کردیا، اس لئے نہیں کہ کلاسک اسکرپٹ ہے اور جب میں ‘کلاسک’ کہتا ہوں تو اس کا مطلب آسان روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والا کم میک اپ، کوئی ڈرامائی بیک گراونڈ میوزک ہرروز کی تلخ حقیقت نہیں ہے۔

کہانی کردار کی تعمیر، خواتین کو بااختیار بنانے، معاشرے کے زہریلے اصولوں کو ترک کرنے کے بارے میں ہے اور میں نے آٹھ سوچا دینے والے نکات کا خلاصہ کیا گیا ہے۔

1) ڈرامہ جب شروع ہوا تو تقریباً ہر قسط میں مقصود صاحب کو سکینہ، کبھی امیرا کے گھیرے میں دکھایا گیا۔مگر اس کے اختتام حاضرین نے دیکھا کہ ہر عورت اپنی زندگی کے مقاصد میں کے حصول میں کامیاب ہوگئی تھی۔

2) ڈرامہ میں گھریلو تشدد اور بد تمیزی کو اجاگر کیا گیا اور اس کو روکنے کی ضرورت ہے،اور خاص طور پر گھریلو زیادتی، کسی بھی عمر میں‘معمول کی بات نہیں ہے’، چاہے وہ 16 سالہ لڑکی ہو یا 40 سالہ خاتون؛ اسے روکنے کی ضرورت ہے۔

3) سکینہ تقریباً 20 سالوں سے گھریلو زیادتیوں کا نشانہ بن رہی تھی مگر جب اس کی بیٹی کی بات آتی ہے تو وہ اس ظلم کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اس کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

4) امیرا کا سفر، یہ خود ہی ایک خوبصورت سفر اور مضبوط کردار سازی ہے۔ ہم سب نے عامرا کو ایک معمولی، ان پڑھ ہونے کا مشاہدہ کیا، آہستہ آہستہ ایک عام دیہاتی لڑکی ایک سمجھدار لڑکی کی حیثیت اختیار کر گئی جو جانتی ہے کہ اس کی والدہ اپنے والد کی وجہ سے گھریلو زیادتی کا نشانہ بنی ہیں، اور وہ جانتی ہیں کہ اپنے ساتھ بد سلوکی کرنے والے باپ کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اب تعلیم کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتی ہے۔

5) انشا اور اس کی والدہ ہاجرہ کے درمیان دل کو چھونے والی گفتگو آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے، جو ماضی کے جذبات اور احساسات سے بھری ہوئی ہے۔

وہ منظر جہاں انشا ہاجرہ سے شکایت کرتی ہے کہ اسے کیوں لگتا ہے کہ اس کی بیٹی اس کی کمزوری ہے نہ کہ اس کی طاقت اور اس نے اپنی پوری زندگی مقصود صاحب کے لئے صرف کردی۔

6) مقصود صاحب اور امیرا کے مابین ایک اور لمحہ مشترک تھا، وہ بے اختیار تھا۔ وہ منظر جہاں امیرا اپنے لئے اپنے جذبات کو ظاہر کرتی ہے اور اس نے اسے ٹھکرا دیا جس کی وجہ سے امیرا نے خود کشی کی۔

ان دونوں کے مابین بعد کی گفتگو جہاں مقصود صحاب نے اسے مشورہ دیا کہ وہ سکینہ کے ساتھ اپنی محبت کی کہانی کو نظرانداز نہ کریں کیوں کہ اب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسے ہر روز اس سے کس طرح تکلیف ہوتی ہے، یہ کس طرح ایک نادان اقدام تھا جس نے اپنے آس پاس کی بہت سی زندگیوں کو پریشان کردیا۔ اس کی وجہ سے اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو کیسے کھویا۔

7)لیکن آخری بات یہ نہیں کہ ہم صرف اس پر متفق ہوں کہ کس طرح ہم نے قسطوں کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ حاجرہ اور مقصود صاحب کے باہمی رشتے سے لطف اُٹھایا، ہاجرہ کو آخر کار احساس ہوا کہ وہ صرف ایک بیوی سے زیادہ ہے اور ٹیچر بننے کا فیصلہ کرتی ہے اور اپنے وقت کو زیادہ دانشمندی سے استعمال کرتی ہے۔

Related Posts