ہماری کائنات میں زمین وہ واحد سیارہ ہے جہاں انسانوں، جانوروں اور پودوں سمیت متعدد انواع و اقسام کی زندگی بستی اور سانس لیتی ہے تاہم یہاں کے سب سے ترقی یافتہ جاندار انسان نے زمین کے ماحول کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے تبدیل کیا اور آج یہ اتنا تبدیل ہوگیا ہے کہ اسے واپس اپنی فطری حالت میں لانے کیلئے ہمیں عالمی یومِ ماحولیات منانے کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔
عالمی یومِ ماحولیات کا تصور کوئی نیا تصور نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی برادری کو یہ دن مانتے مناتے 46 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یومِ ماحولیات منانے کا مقصد کیا ہے؟ زمین کو ایسے کون سے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کیلئے آگہی بیدار کرنا ضروری ہے اور من حیث القوم یا انفرادی حیثیت سے ہم زمین کے ماحول کو صاف ستھرا اور فطرت سے قریب تر رکھنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟ آئیے آج ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عالمی یومِ ماحولیات کے مقاصد
اقوامِ متحدہ نے سن 1974ء میں گرین ہاؤس افیکٹ سمیت دیگر ماحولیاتی مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا اور اب تک 46 بار یہ دن منایا جاچکا ہے جس کا مقصد عوام، حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں سمیت ہر انسان میں یہ شعور بیدار کرنا ہے کہ زمین کسی ایک ملک کی ملکیت یا کسی ایک قبیلے کی جاگیر نہیں بلکہ یہ ہم سب کا گھر ہے جس کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔
زمین کی حفاظت میں زمین کے ماحول کی حفاظت سب سے اہم ہے جس کیلئے ہمیں گرین ہاؤس افیکٹ اور اوزون لیئر کو لاحق خطرات کا جائزہ لینا ہوگا اور ماحول کو تیزی سے تبدیل کرنے والے عناصر کو قابو میں لا کر زمینی ماحول کو انسانی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ان امور کے تمام پہلوؤں پر شعور اجاگر کرنا عالمی یومِ ماحولیات کے دن کا اہم مقصد ہے تاکہ ماحول کو فطری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔
اہم ماحولیاتی مسائل
زمین کو سب سے بڑا جو خطرہ درپیش ہے وہ گرین ہاؤس افیکٹ کا ہے۔ گرین ہاؤس بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک زبردست ٹیکنالوجی کا نام ہے جس کے تحت ہم زمین سے بے موسمی پھل اور سبزیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ زمین پر جس جگہ بے موسمی پھل اور سبزیاں اگانی ہوں، اس جگہ کو ایک مخصوص شیشے سے ڈھک دیا جاتا ہے جو روشنی کے ذریعے حرارت کو اندر تو آنے دیتا ہے لیکن باہر نہیں جانے دیتا جس سے مصنوعی موسم جنم لیتا ہے۔
مصنوعی موسم کے ذریعے جس طرح ہم زمین کے کچھ حصے کو اپنی مرضی سے شدید گرم کر لیتے ہیں، اسی طرح ہماری پوری زمین بھی ایک ایسے ہی اثر کے تحت آجائے تو سوچئے کہ ہمارا انجام کتنا بھیانک ہوسکتا ہے؟ کیونکہ پودے، ن انسان اور جانور ایک حد سے زیادہ گرمی برداشت نہیں کرسکتے۔
گرمی کے علاوہ گرین ہاؤس افیکٹ سے بڑے پیمانے پر گلیشئرز پگھل رہے ہیں جس سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بہت سے ساحلی شہر نہ صرف یہ کہ زیرِ آب آئیں گے بلکہ رفتہ رفتہ وہ زمین کے نقشے سے غائب بھی ہوسکتے ہیں جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
زمین سے غائب ہونے والے شہر
سن 2050ء تک 30 کروڑ لوگ سمندری پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث شدید متاثر ہوں گے۔ سمندر سے بڑی بڑی لہریں اٹھیں گی جو 15 کروڑ لوگوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن سکتی ہیں جن میں سے 3 کروڑ کا تعلق چین سے ہوگا۔ اگلے 30 سالوں میں اگر سمندر سے تحفظ ممکن نہ بنایا گیا اور منصوبہ بندی نہ کی گئی تو مسلسل سمندری طوفان آتے رہیں گے۔
جو شہر صفحۂ ہستی سے مٹنے کے خطرات سے دوچار ہیں، ان میں انڈونیشیاء کا دارالحکومت جکارتہ، نائیجیریا کا شہر لاگوس، امریکی ریاستیں ہیوسٹن، فلوریڈا، میامی اور ٹیکساس، بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ، اٹلی کا شہر وینس، ورجینیا کا ساحل، تھائی لینڈ کا شہر بینکاک، ہالینڈ کا شہر روٹر ڈیم اور مصر کا مشہور شہر سکندریہ شامل ہیں۔
آلودگی اور دیگر مسائل
سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح تو ایک طرف رہی، آلودگی کے باعث ہر روز انسان سانس کی بیماریوں، دمے، پھیپھڑوں کے کینسر اور دیگر مہلک امراض کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسان دھڑا دھڑ جنگلوں کی کٹائی کر رہا ہے جس سے ماحول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
غور کیجئے تو زمین جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی تھی اور جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، دونوں حالتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور بدقسمتی سے یہ فرق منفی اور تباہ کن ہے۔ انسان نے زمین کو اپنی رہائش کے قابل بنانے کیلئے اسے اتنا توڑا مروڑا کہ آج زمین کے کتنے ہی علاقے خود انسان کی رہائش کیلئے مضرِ صحت قرار دے دئیے گئے ہیں۔
ماحولیاتی مسائل کا حل
روپے پیسے کے حصول اور ملکی مفادات کے نام پر سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کے سبب عالمی برادری حقیقی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک صنعتی ترقی کو خوشحالی کی کنجی سمجھتے ہیں جبکہ یہی صنعتی ترقی آہستہ آہستہ خود انہی کے گلے کا پھندا بنتی جارہی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے ہدایت کی ہے کہ عالمی برادری ماحولیاتی آلودگی، گرین ہاؤس افیکٹ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کے حل کیلئے مل جل کر کام کرے اور جنگلوں کی کٹائی، صنعتوں کے باعث فضائی، زمینی اور آبی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے میں عوام الناس کی مدد کرے۔
انفرادی سطح پر ہم سب کو چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے اپنی اپنی استعدادِ کار اور صلاحیت کے مطابق کام سرانجام دیں۔ جسے درخت لگانا آتا ہے وہ درخت لگائے اور جو شخص درختوں کی حفاظت کرسکتا ہے، وہ لوگوں کو جنگلوں کی کٹائی سے روکے۔
حکومتی سطح پر پالیسی سازی، قانون سازی اور ماحولیات کے تحفظ کیلئے گرین ہاؤس افیکٹ جیسے مسائل پر عوامی آگہی و شعور بیدار کرنے اور ایک قومی مہم چلانے کی ضرورت ہے جیسا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا بلین ٹری سونامی منصوبہ کسی حد تک ایسے مسائل کے تدارک کے لیے کار آمد قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم ماحولیات کے مسائل پر قابو پانے کیلئے ہمیں انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر کاوشوں کی ضرورت ہے۔