وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی تین سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کردی، جس میں گورننس، معیشت اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں اپنی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔ 251 صفحات پر مشتمل رپورٹ انفوگرافکس اور متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار کے ذریعے وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں سمیت 44 عوامی اداروں کی کامیابیوں کا خاکہ پیش کررہی ہے۔
کسی حکومت کے لئے اس کے پانچ سالہ مینڈیٹ کے دو سال باقی ہونے کے باوجوداس کی کارکردگی کا فیصلہ کرنا نا انصافی ہوسکتی ہے۔ مگر یہ رپورٹ بعض رجحانات کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے،جس نے وزیر اعظم عمران خان کی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال کھڑا کردیا ہے۔
تقریب کے دوران وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے بدترین معاشی حالات کے باوجود معیشت کو مستحکم کیا،جس کے تحت تجارتی خسارہ 38 بلین ڈالر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تھا جو 2017-18 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا آخری سال تھا۔ وزیر اعظم کے مطابق، تمام معاشی اشاریے اوپر کے رجحانات دکھا رہے تھے۔انہوں نے پلوامہ واقعے کے بعد ہندوستان کی جانب سے خطرے کو ہمت سے نمٹایا، اور کورونا کے خطرے کو کامیابی سے زندگی اور معاش میں توازن دے کر قابو کیا۔
تاہم، گھریلو محاذ پر، کچھ کمزوریاں اب بھی نظر آتی ہیں۔ پالیسیوں میں مستقل مزاجی کا فقدان مہنگائی کا باعث بنتا ہے اور احتساب کے لیے سیاسی طور پر بننے والا نقطہ نظر،جس نے اس سارے عمل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
حکومت کو در حقیقت ایک خستہ حال معیشت وراثت میں ملی، مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر پوری طرح کنٹرول حاصل کیا اور مجموعی طور پر معیشت کی سمت کو ٹھیک کردیا۔ وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے بہترین فیصلے کئے جس کے اچھے نتائج دکھائی دے رہے ہیں۔
جس طرح حکومت نے کاروباری اداروں کو بدترین لاک ڈاؤن سے بچایا اور روزگار کی صورتحال کو زیادہ خراب ہونے سے روکے رکھا۔ احساس پروگرام جس نے سماجی حفاظت کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا ہے۔اگرچہ حکومت نے قابل ذکر کارنامے سر انجام دیئے ہیں، اس کے باوجود حکومت کو بڑے پیمانے پر عوام کو کچھ اچھا احساس دلانے میں کامیاب ہونا ہے تو اسے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔