افغانستان پیپرز کا ازسرنوجائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

طالبان نے کابل اور بیشتر افغانستان پر 5 ہفتوں کے اندر اندر کنٹرول حاصل کر لیا جس پر بہت سے تجزیہ کار اور عالمی میڈیا پریشان ہے کہ کس طرح اشرف غنی حکومت اور افغان فوج مکمل طور پر پسپا ہو گئے تاہم بہت سے ماہرین نے 2001 میں نائن الیون حملوں اور اکتوبر 2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کے قبضے کی پیشگوئی کی تھی۔

مزید یہ کہ افغانستان پیپرز جنہیں واشنگٹن پوسٹ نے کریک وٹلاک کی مدد سے 9 دسمبر 2019 کو رپورٹ کیا، ان میں افغان جنگ کے نتائج کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ان میں دستاویزات کے 2 سیٹس اور 1 ہزار 900 صفحات کے نوٹس موجود ہیں۔ 400 سے زائد امریکی اور دیگر پالیسی سازوں کے انٹرویوز جنہیں ایس آئی جی برائے افغان ری کنسٹرکشن (سگار) نے 2014 سے 2018 تک منعقد کیا اور پھر 190 مختصر یادداشتیں (اسنو فلیکس) جو امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے 2001 سے 2004 تک تحریر کیں، سب اس میں شامل ہیں۔ان تمام دستاویزات کو ہم آگے چل کر صرف پیپرز یا افغان پیپرز کہیں گے۔ 

افغان پیپرز میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی سیاسی و عسکری قیادت جارج بش سے لے کر ٹرمپ حکومت تک یہ عمومی رائے رکھتی تھی کہ جنگ ناگزیر ہے جس کی کامیابی سے متعلق امریکی عوام کو مسلسل گمراہ کیا جاتا رہا۔ افسوس کی بات یہ رہی کہ امریکا اور دنیا کے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ نے پالیسی سازوں کی تنقیدی جانچ کیے بغیر یہ جھوٹ کا پلندہ عوام کے سامنے پیش کرنے کا عمل جاری رکھا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی پر پاکستان کی طرح دیگر ممالک کو بھی قربانی کا بکرا بنانا ایک آسان کام ہے جو امریکی حکومت کر رہی ہے۔

حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ کیا ٹوئٹر، فیس بک، جارج بش، بارک اوباما، جو بائیڈن، امریکی محکمۂ دفاع اور دیگر کے اکاؤنٹس بند کردیں گے کیونکہ انہوں نے 20 سال تک افغانستان میں جنگ پر مسلسل جھوٹ اور گمراہ کن معلومات شائع کیں، جیسا کہ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز دیگر ممالک کے حکام کے ساتھ کرتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جھوٹ بولا جائے توکسی بھی طرح کے نتائج سامنے نہیں آسکتے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کی دہشت گردی میں کوئی افغان یا پاکستانی باشندہ ملوث نہیں تھا لیکن اس وقت کے صدر جارج بش کے دور میں امریکا نے القاعدہ کو ختم کرنے اور طالبان کو شکست دینے کیلئے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔ بش حکومت نے 9 الیون میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت دکھائے بغیر طالبان رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر اتفاق بھی کیا تاہم امریکا نے اس سے انکار کیا اور افغانستان پر حملہ کردیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا مارنے سے زیادہ شاید لیتھیم حاصل کرنے کیلئے افغانستان میں داخلے پر زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔

جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے 6 ماہ کے اندر القاعدہ اور طالبان کے رہنما یا تو جاں بحق ہو گئے، پکڑے گئے یا روپوش ہو گئے اور یہی امریکی افواج کے انخلاء کیلئے مثالی وقت تھا لیکن امریکی حکومت نے اپنے اسٹرٹیجک مقاصد مسخ کرنا شروع کردئیے۔ مزید 19 سال تک امریکی فوج افغانستان میں رہی لیکن ان کی مسلسل موجودگی افغان عوام کی مدد کیلئے نہیں بلکہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کہلانے والے درندے کی مالی امداد کیلئے تھی۔

گزشتہ 20 برس میں امریکا نے افغانستان میں جنگ کیلئے کم و بیش 2 اعشاریہ 26 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جو 30 کروڑ ڈالر روزانہ بنتے ہیں۔ افغان عوام اس خطیر رقم سے کچھ حاصل نہ کرسکے سوائے متمول سیاسی طبقے کے، تاہم زیادہ تر یہ رقم دفاعی اخراجات کے نام پر خرچ ہوئی۔ اگر کسی شخص نے بڑے امریکی دفاعی سرمایہ کاروں میں سے کسی ایک کیلئے 2001 میں 10 ہزار ڈالر سرمایہ کاری کی ہوتی تو آج تک اسے 4 سے 13 گنا زائد منافع مل چکا ہوتا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ امریکی میرین کارپس میجر جنرل اسمیڈلے بٹلر نے جب یہ کہا کہ جنگ ایک ریکیٹ کا نام ہے تو بالکل درست کہا تھا۔

جنگ کا فیصلہ کتنا تباہ کن تھا، یہ سمجھنے کیلئے افغانستان پیپرز میں 2015 کا ڈگلس لوٹ کا انٹرویو دیکھا جاسکتا ہے جو 3 ستاروں کے حامل فوجی جرنیل ہیں جنہوں نے جارج بش اور بارک اوباما حکومت کے تحت افغانستان کیلئے جنگی جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ افغانستان کی بنیادی سمجھ بوجھ سے بھی عاری تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اگر عام امریکی عوام بھی اس کے متعلق کچھ جانتے تھے تو ہمیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت یا فوج میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں مشن کیا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ دنیا کی مضبوط ترین جدید فوجی طاقت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کررہی ہے۔ یہ بالکل ناقابلِ یقین بات لگتی ہے۔

سگار کے ہی ایک انٹرویو میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی فوج نے جان بوجھ کر اعدادوشمار میں تبدیلیاں کیں تاکہ امریکی عوام کو یقین ہوسکے کہ امریکا جنگ جیت رہا ہے۔ ہر ڈیٹا پوائنٹ کو بہترین تصویر پیش کرنے کیلئے تبدیل کردیا گیا۔ ایک فوجی کرنل باب کرولی نے جو 2013 اور 2014 میں امریکی فوجی کمانڈرز کے انسدادِ بغاوت کے سینئر مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں، کہا کہ اس کی وجہ کھربوں ڈالرز ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو خوراک مہیا کرنا تھا۔

مئی 2018 کی ایک رپورٹ میں سگار نے امریکی حکومت کی استحکام کی حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں حکومتی اداروں کی تعمیر اوراصلاح کی صلاحیت کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ انہیں پتہ چلا کہ استحکام کی حکمتِ عملی اور اسے حاصل کرنے کیلئے پروگرامز افغان سیاق و سباق کے مطابق نہیں تھے اورافغان اضلاع کو مستحکم کرنے میں اتحادی فوجیوں کو کم ہی کامیابیاں حاصل ہوتی تھیں۔ 

افغانستان اور پاکستان کیلئے سابق امریکی ایلچی جیمز ڈوبنس کے افغانستان پیپرز میں ایک کلاسک اقتباس کو دیکھئے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم آمرانہ ممالک کو جمہوری بنانے کیلئے ان پر حملہ نہیں کرتے۔ ہم پر تشدد ممالک پر حملہ کرتے ہیں تاکہ وہ پر امن ہوں اور افغانستان میں ہم واضح طور پر ناکام ہو گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی ملک میں امن لانے کیلئے امریکی ایکشن پلان صرف بم ہی گرارہا ہے۔

اربوں ڈالرز کی جو امداد امریکی حکومت نے افغانستان میں خرچ کی، اس کے نتیجے میں بدعنوانی کی تاریخی سطح میں اضافہ ہوا اورافغان حکومت کرپٹو کرنسی بن گئی۔ 2002 میں افغانستان میں سابق امریکی سفیر اور 12-2011 کے بعد ریان کروکر نے سگار کے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ہمارا سب سے بڑا سنگل پراجیکٹ افسوسناک اور نادانستہ طور پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ امریکی عوام کو مشتعل ہونا چاہئے کہ ان کی حکومت نے طالبان کے قرضوں کی ادائیگی اور بے گھر اور غریب خاندانوں کیلئے گھر مہیا کرنے کی بجائے افغانستان میں ٹیکس کا پیسہ ضائع کیا۔

طالبان کے مقابلے میں افغان سیکیورٹی فورسز کو نااہل قرار دیتے ہوئے کسی بھی امریکی فوجی ٹرینر نے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے طور پر طالبان کو شکست دیں گے۔ اسپیشل فورسز کی ٹیموں نے افغان پولیس کو ملک میں بیرل کی وہ تہہ قرار دیا جو پہلے ہی بیرل سے نیچے ہے۔ ایک اور افسر نے اندازہ لگایا کہ ان میں سے ایک تہائی افراد نشے کے عادی یا طالبان تھے۔ اگر یہ افغان سیکیورٹی فورسز کا معیار تھا تو کوئی تعجب نہیں کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے بغیر گولی چلائے طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے اور سرنڈر کردیا۔

قومی سلامتی کونسل کے ایک عہدیدار نے افغانستان پیپرز کے مطابق اعتراف کیا کہ اوباما دور میں وائٹ ہاؤس اور محکمۂ دفاع (پینٹاگون) کی طرف سے مسلسل دباؤ تھا کہ ایسے اعدادوشمار پیش کریں جن سے ظاہر کیا جاسکے کہ 11-2009 میں فوج کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ حقیقت کے برعکس کامیاب رہا۔ اچھے اعدادوشمار پیش کرنا ناممکن تھا۔ این ایس سی کے سینئر عہدیدار نے 2016 میں سرکاری انٹرویو لینے والوں کو بتایا کہ ہم نے تربیت یافتہ فوجیوں کی تعداد، تشدد کی سطح، علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی تاہم ان تمام کاوشوں میں سے کسی ایک میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جنگ کے دوران تمام تر اعدادوشمار غلط پیش کیے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج نے کابل میں خودکش حملوں کو طالبان کی مایوسی اور براہِ راست لڑائی میں حصہ لینے میں ہچکچاہٹ  اور امریکی فوج کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو فوج کے دشمن سے لڑائی میں مصروف ہونے کی علامت ظاہر کیا۔

افغانستان پیپرز کے مذکورہ بالا انکشافات سامنے رکھئے تو کوئی بھی معروضی مبصر یا صحافی سمجھ سکتا ہے کہ طالبان کی جانب سے کابل اور افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کی پیش گوئی کی جاسکتی تھی، چاہے امریکا وہاں سے نکل ہی کیوں نہ چکا ہو۔ افغانستان جنگ ہمیں سکھاتی ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی اور جب حکومت جھوٹ بولتی ہے تو سچ کو ملک کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

اگر امریکا، مغربی ممالک، بھارت اور ان کا میڈیا اب بھی افغانستان میں ہونے والی بد ترین شکست کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے تو انہیں اخلاقی سالمیت کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان نے جدید دنیا کی بڑی طاقتوں کو شکست دے دی جن میں سابق سوویت یونین (موجودہ روس) اور اب امریکا بھی شامل ہوچکا ہے۔ 

Related Posts