الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتوں نے فنڈز کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کیں، بینک اکاؤنٹس چھپائے اور بڑی ٹرانزیکشنز کو ظاہر نہیں کیا۔پی ٹی آئی سے متعلق غیر ملکی فنڈنگ کیس پچھلے سات سالوں سے چل رہا ہے تاہم اب اس حوالے سے مزید تیزی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی فنڈنگ ایک متنازعہ موضوع ہے کیونکہ پارٹیاں فنڈز کے ذرائع کو ظاہر نہیں کرتی ہیں۔ پاکستان میں تحقیقات کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد کمیٹی کی بھی کمی ہے کہ آیا فنڈز پالیسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے دیے گئے تھے یا نہیں۔
آئین میں سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور غیر قانونی فنڈنگ پر جماعتوں کوتحلیل بھی کیا جا سکتا ہے تاہم غیر ملکی فنڈنگ کیس اگر اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے تو سیاسی رشوت ستانی کا کلچر ختم ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے 1اعشاریہ 64 ارب روپے سے زائد وصول کیے لیکن کئی بینک اکاؤنٹس چھپانے کے ساتھ 310 ملین روپے ظاہر نہیں کیے ۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے فوری طور پر رپورٹ کو ‘غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور دیگر جماعتوں سے موازنہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ رپورٹس میں واضح طور پر کسی غلط کام کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے لیکن تضادات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
وزیر اعظم نے رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جانچ پڑتال سے یہ واضح ہو جائے گا کہ پی ٹی آئی صرف سیاسی فنڈ ریزنگ کی بنیاد رکھنے والی واحد جماعت ہے۔
اپوزیشن کادعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ نے عمران خان کو بے نقاب کردیا ہے اور وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔تاہم اپوزیشن کو خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ بھی اس مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کٹہرے میں ہے اور برسوں سے مکمل تفصیلات فراہم کرنے کی مزاحمت کر رہی ہے۔ وزیراعظم کو بااثر حلقوں سے فنڈز لینے کے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کیا جائے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو اس کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے رکھیں۔
پی ٹی آئی کو اس عمل میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اپنے ذرائع آمدن کاریکارڈ فراہم کرنا چاہیے کیونکہ یہ طاقت ورعطیہ دہندگان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے اور گورننس کو مضبوط بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔