نئے مالی سال کیلئے پنجاب کا صوبائی بجٹ اور عوام کی حکومت سے توقعات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نئے مالی سال کیلئے پنجاب کا صوبائی بجٹ اور عوام کی حکومت سے توقعات
نئے مالی سال کیلئے پنجاب کا صوبائی بجٹ اور عوام کی حکومت سے توقعات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ابھی تین روز قبل ہی وفاقی حکومت نے بجٹ پیش کیا جس پر اچھی خاصی بحث و تمحیص ہوئی جو آج تک جاری ہے کہ اسی دوران پنجاب نے بھی بجٹ پیش کرنے کا اعلان کردیا۔

دوسری جانب سندھ بھی صوبائی بجٹ پیش کرنے کیلئے پر تولتا دکھائی دیتا ہے، تاہم پنجاب کے صوبائی بجٹ کے ابتدائی خدوخال بجٹ سفارشات کے بعد نظر آگئے ہیں جن پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

صوبہ پنجاب کی دیگر صوبوں سے الگ حیثیت

بلاشبہ وطنِ عزیز پاکستان کا ہر صوبہ اپنی مثال آپ ہے لیکن جب ہم اعدادوشمار کی بات کرتے ہیں تو کچھ زمینی حقائق ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے نہ صرف یہ کہ سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ وفاق پر زیادہ تر حکمرانی کا دعویدار بھی رہا ہے۔

سن 2017ء کے اعدادوشمار کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان کی آبادی 20 کروڑ77 لاکھ 74 ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہیں جس میں سے 11 کروڑ 12 ہزار 442 افراد پر مشتمل ہے۔ سندھ کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51، خیبر پختونخواہ کی 3 کروڑ 52 لاکھ 3 ہزار 371 جبکہ بلوچستان کی 1 کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے۔

آج مملکتِ خداداد پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جس میں سے پنجاب کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور یہاں کے اعدادوشمار کی اہمیت بھی اسی اعتبار سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔

صوبائی اسمبلی میں بجٹ کی متوقع صورتحال

قومی اسمبلی کی طرح صوبائی اسمبلی میں بھی بجٹ پیش کرنے کے بعد وہی صورتحال متوقع ہے جو قومی اسمبلی میں تھی یعنی اپوزیشن کے اراکین شور شرابہ کریں گے اور بجٹ نامنظور کے نعرے بھی لگائے جائیں گے، تاہم وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اس تمام تر صورتحال پر متوقع طور پر قابو پا لیں گے۔

پنجاب اسمبلی کا خصوصی اجلاس آج دوپہر 2 بجے ہوگا۔ صدارت حسبِ معمول چوہدری پرویز الٰہی بطور اسپیکر کریں گے۔ وزیرِ خزانہ پنجاب بجٹ پیش کریں گےاور وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ اجلاس کی طرز پر صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی ہوگا۔

بجٹ تجاویزاور تخمینہ جات

صوبہ پنجاب کے نئے مالی سال کے بجٹ کیلئے تجاویز آج ہی سامنے آئی ہیں جن کے مطابق بجٹ کا حجم 22 کھرب 40 ارب ہوگا جس میں سے ترقیاتی بجٹ 337 ارب، معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے 46 ارب، اسمال ورک کیلئے 30، تربیتی پروگرامز کیلئے 8، جاری منصوبوں کیلئے61، نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 54 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویز زیرِ غور ہیں۔

اراکینِ اسمبلی کے لیے 23 ارب، پبلک پرائیویٹ پارٹنرزپ 25، واجب الادا فنڈز 16،اخراجات کا مجموعی تخمینہ 2115 ارب، اخراجاتِ جاریہ کا تخمینہ 1 ہزار 778 ارب، ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 337 ارب ہوگا۔

بنیادی صحت کیلئے اخراجاتِ جاریہ کی مد میں 121 ارب، خصوص صحت کیلئے 128 ارب، اسکولز تعلیم کیلئے 319 ارب جبکہ دیگر محکموں کیلئے 618 ارب کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

پنجاب کی مجموعی آمدنی 2 ہزار 240 ارب روپے ہے جس میں سے 1 ہزار 433 ارب قابلِ تقسیم محاصل کی مد میں متوقع ہیں۔ صوبائی محاصل سے آمدنی 317 ارب تک ہوسکتی ہے۔

ٹیکس فری بجٹ 

وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے مطابق صوبہ پنجاب کا بجٹ ٹیکس فری اور بزنس فرینڈلی ہوگا۔ انہوں نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر کاروباری برادری کو تسلیاں بھی دیں کہ بجٹ ان کیلئے باعثِ اطمینان ثابت ہوگا۔

اپنے تازہ ترین بیان میں فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہم نے عوام کو ٹیکس میں ریلیف دیا ہے  جبکہ چھوٹا کاروباری شعبہ بھی خصوصی فنڈز سے مستفید ہوسکے گا۔ جس طرح کے حالات ہیں، اِس سے بہتر بجٹ پیش ہی نہیں کرسکتے۔

زیرِ توجہ شعبہ جات

پنجاب حکومت نے صحت اور تعلیم کو ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے جبکہ زرعی انکم ٹیکس میں اضافے کی تجویز زیرِ غور ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبہ پنجاب ترقی کی طرف جا رہا ہے، تاہم زرعی شعبے پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

غور کیجئے تو زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری ملک کے دیگر شعبہ جات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک کسان جب گنے کی بہتر پیداوار لاتا ہے تو اس سے ملک میں چینی کی صنعت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ گندم کی بہتر پیداوار گندم کی برآمدات پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ کپاس کی پیداوار سے ٹیکسٹائل کی صنعت پر اثر پڑتا ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں حکومت کا فوکس زراعت سے ہٹ کر سرمایہ کاری اور صنعتکاری کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک بھر کے کسان معاشی بدحالی اور غربت کا شکار ہیں جس پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔

ریلیف ضروری ہے

صنعتوں کا پہیہ جام ہونے، زراعت پر ٹڈی دل کے حملوں اور کورونا وائرس کے باعث پنجاب سمیت ملک بھر میں ہر شعبے میں عوام عدم تحفظ اور معاشی پریشانیوں کا شکار ہیں جنہیں ریلیف چاہئے۔ 

وزیرِ اعظم عمران خان کا احساس پروگرام ہمارے سامنے ہے جس کے ذریعے مفلوک الحال غرباء کو فاقہ مستی سے نجات دلائی گئی، تاہم پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن تقریباً ختم کر رکھا ہے جس سے کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا نظر آتا ہے۔

اگر ہم اعدادوشمار پر غور کریں تو کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض یعنی 54 ہزار 138 افراد صوبہ پنجاب کے رہائشی ہیں اور یہی وہ صوبہ ہے جہاں وائرس کے باعث سب سے زیادہ یعنی 1 ہزار 31 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اِس دنیا سے چلے گئے، ان میں سے کتنے لوگ اپنے خاندان کی کفالت کرنے والے تھے جو اب نہیں رہے اور ان کا خاندان فاقہ کشی یا معاشی بدحالی کا شکار ہے؟

حکومتِ پنجاب کو چاہئے کہ معاشی بدحالی، غربت اور مصنوعی مہنگائی کے مسائل پر قابو پائے تاکہ جن غریبوں کے گھر کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ، انہیں بھی قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔ 

Related Posts