عراقی عوام کی مزاحمت نفرت انگیز ایرانی نفوذ کے خلاف ہے، امریکی اخبار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

iraq protest
عراقی عوام کی مزاحمت نفرت انگیز ایرانی نفوذ کے خلاف ہے ، امریکی اخبار

واشنگٹن: امریکی اخبار نے عراق میں بڑے پیمانے پر جاری مظاہروں کو پہلی مرتبہ ایرانی نفرت انگیز تسلط اور نفوذ کے خلاف قرار دیا ہے، انٹرنیٹ سروس کا منقطع ہونا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یہ مظاہرے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

امریکی اخبار نے رپورٹ میں بتایاکہ عراق کی زیادہ تر وزارتیں ایرانی جماعتوں کے زیر کنٹرول ہیں۔ اسی طرح ایران نے داعش تنظیم کے خلاف جنگ سے فائدہ اٹھایا اور عراقی ریاست کی جڑوں میں بیٹھ گیا۔

عراق میں احتجاج کا آغاز تقریبا ایک ماہ قبل خاموشی کے ساتھ ہوا، آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور گذشتہ ہفتے بغداد کے مظاہرے میں 2 لاکھ سے زیادہ عراقی شریک ہوئے۔ یہ عراق کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔

مزید پڑھیں: عراق میں احتجاجی مظاہرے، بغداد سمیت کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس بند

احتجاج عراقی حکومت اور غیر ملکی قابض طاقت کے خلاف تھا تاہم اس مرتبہ یہ غیر ملکی طاقت امریکا نہیں بلکہ ایران ہے۔احتجاج کنندگان نے ایران کے خلاف اپنے غصے کا بھرپور اظہار کیا اور اْن عراقی جماعتوں کے خلاف بھی آواز لگائی جو ایران کے ساتھ مربوط ہیں۔

امریکی اخبار کے مطابق اگرچہ 2003 میں حملے کے بعد نافذ کردہ نظام عراقیوں کا وضع کردہ تھا جس پر عمل درآمد امریکیوں نے ممکن بنایا ، تاہم اس نظام نے سیاسی اتھارٹی کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کر دیا۔ ایران نے اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے عراقی سیاست میں اپنے پاؤں جمانے کے لیے استعمال کیا۔

سال 2009 کے بعد عراق سے امریکی انخلا کے ساتھ ہی ایران سے تعلقات رکھنے والی عراقی جماعتوں نے حکومت کے اندر اپنے نیٹ ورک کو وسیع کر دیا۔ سال 2014 میں ایران نے داعش تنظیم کے خلاف جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ دہشت گرد تنظیم سے لڑنے کے لیے ملیشیا تشکیل دینے میں مدد کی۔

یہاں تک کہ 2018 کے دوران ایران کے ساتھ مربوط سیاسی جماعتوں کو عراقی حکومت میں کنٹرول حاصل ہو گیا۔امریکی اخبار کے مطابق عراق کی حالیہ حکومت تشکیل پانے کے لیے ہونے والی ڈیل ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے انجام پائی۔

اخبار کا کہنا تھا کہ بدعنوانی سے نجات، سیاسی جماعتوں پر روک اور پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام کے قیام سے متعلق مظاہرین کے مطالبات فی الوقت پورے ہونا کافی دشوار ہے کیوں کہ مظاہرین فوری نتائج کے خواہاں ہیں۔

Related Posts