پیشہ ور بھکاری

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شاید اس موضوع پر میں کالم کبھی نہ لکھتا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کی روزی روٹی خراب ہو یا ختم ہو لیکن چند دن پہلے اپنے فیس بک فرینڈ الیاس ملک جوکہ پولیس افسر ہیں ان کی پیشہ ور گداگروں کے حوالے سے پوسٹ دیکھی تو میں نے سوچا کہ رمضان شریف ہے،ظاہر ہے لوگ صدقات اور فطرانے دیں گے جو حقدار کی بجائےکہیں پیشہ ور مافیا کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں لہٰذا میں نے اس ٹاپک پر کالم لکھنے کا سوچا اور ماضی کے ایک واقعے کا ذکرکیا۔

یہ 2015 کی بات ہے اس وقت مجھے اسلام آباد میں زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا میں لاہور کے ایک نیوزپیپر سے اٹیچ تھا ہم روزانہ پنڈی کچہری سے کام کیلئے اسلام آباد آتے اور رات گئے واپس جاتے ،اس روٹ پر پبلک ٹرانسپورٹ کا بہت مسئلہ ہوتا ہے ،اس روٹ پر ٹیوٹا ہائی ایس وین چلتی ہے جو سیکریٹریٹ تک جاتی ہے ،وہ کچہری سے اسلام آباد کی سواری نہیں بٹھاتے بلکہ کھنہ پل تک ہی سواری بٹھاتے ہیں اور پھر وہاں سے آگے کی سواری اٹھاتے ہیں اسطرح ان کو ڈبل کرایہ مل جاتا ہے ۔

اس روز بھی ایسا ہی ہوا کہ ہم ٹیوٹا پر بیٹھے اور اس نے ہمیں کھنہ پل اتار دیا ہم نے کہا کہ بھئی کرایہ لے لو اور آگے چلے جاؤ مگر وہ نہ مانا چنانچہ میں نے سوچا کہ اگر گاڑی کا انتظار کیا تو لیٹ ھوجائیں گے ،ہم دیہاتی لوگ ہیں لہٰذا پیدل چلنا تو ہماری گھٹی میں شامل ھوتا ہے۔

میں نے سوچا یہاں سے زیرو پوائنٹ تک پیدل جاتا ہوں وہاں سے مجھے کوئی گاڑی مل جائے گی لہٰذا میں عازم سفرہوا ،آج ایک اہم پریس کانفرنس تھی جس میں حاضری ضروری تھی لہٰذا سڑک کے ایک کنارے چلنے لگا ۔

جب میں ڈھوک کالا خان پہنچا تو سوچا کہ انڈر پاس کے ذریعے سڑک کے دوسری طرف چلا جاؤں۔ یہاں ایک بات واضح کردوں کہ میں عموماً رائٹ ہاتھ پہ چلتا ہوں تاکہ سامنے اور پیچھے والی والی گاڑی سے محفوظ رہ سکوں ۔یہ کالج کے دور کا ٹوٹکا ہے جو ہمارے اس وقت کے ڈی ایس پی ٹریفک نے ہمیں بتایا تھا۔

میں جیسے ہی انڈر پاس پر پہنچا تومیری نظر ایک اپاہج شخص پر پڑی جس کو ایک اور ہٹا کٹا شخص وہیل چیئر سے اتار کر نیچے بٹھا رہا تھا میں جیسے قریب پہنچا تو اس بھکاری نے کہا ۔اﷲ کے نام پہ کچھ دیدو بابا،میں نے پیسے نکالے اور اسکو دیدیے اور جونہی آگے قدم بڑھایا میرے کانوں میں ۔گڈ ،شاباش جیسے الفاظ کی گونج سنائی دی ۔

میں یکدم پلٹا ، وہ دونوں آپس میں محو گفتگو تھے اور یہ الفاظ اس ہٹے کٹے آدمی کے تھے ،مجھے تجسس پیدا ھوا کہ یہ کیا ماجرا ہے خیر آگے بڑھ گیا رات کو جب میں گھر واپس آیا اور سونے لگا تو یکدم وہ واقعہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا میں سوچ میں پڑگیا کہ اصل ماجرا کیا ہے مجھے اسکی کھوج لگانی چاہیے چنانچہ میں نے تہیہ کیا کہ میں اسکی گہرائی تک جاؤں گا لہٰذا دوسرے دن میں اپنے دوست کیساتھ بائیک پر آیا اور اسی پل کے قریب اترگیا اور دوبارہ اوپر چڑھنے لگا تاکہ دیکھوں کہ وہ بھکاری آیا ہے یا نہیں ۔

میں جیسے اوپر پہنچا وہ بیٹھا تھا لیکن آج اکیلا تھا لہٰذا میں دوبارہ سامنے سےگزرا تو اس نے پیسے مانگے میں نے نکال کر دیدیے اور آگے جاکر یونہی ادھر ادھر دیکھا جیسے مجھے کسی کی تلاش ھو اور پھر واپس آگیا ہم نے اس شام جلدی چھٹی کی اور وہیں جا پہنچے میں اور میرا دوست دونوں آگے بڑھنے لگے اور فون نکال کر کان پر لگالیا اور زور زور سے باتیں کرنے لگا جیسے میں کسی کا انتظار کررہا ھوں اور وہ ابھی تک نہ آیا ھو ، اس دوران ہم واپس آئے اور نیچے اتر کر بائیک پر بیٹھ گئے اس دوران اندھیرا پھیلنے لگا۔

اسی اثناء میں ایک وائٹ کلر کی گاڑی رکی اور اس میں سے وہ ہٹا کٹا آدمی باہر نکلا اور پھر اوپر چلا گیا تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس نے اس بھکاری کو اٹھایا ھوا تھا اس نے اس بھکاری کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور وہاں سے چلاگیا ،پہلے ہم نے سوچا کہ اس کا تعاقب کرتے ہیں لیکن پھر ایک آئیڈیا ذہن میں آنے کے بعد ہم نے ارادہ بدل دیا۔

اس رات اپنے ایک دوست کو بھکاری کا رول ادا کرنے پر راضی کیا اور ہم صبح صبح ہی اس پل پہ جا پہنچے میرا دوست فل بھکاری کے روپ میں تھا میں نے اسکو سب کچھ سمجھایا کہ پتہ کرو یہ سب کیا ماجرا ہے۔ وہ بھکاری وہاں نہیں پہنچا تھا چنانچہ وہ وہیں بیٹھ گیا جبکہ میں آگے کام کی طرف بڑھ گیا۔

شام کو جب میں وہاں پہنچا تو دوست کی بائیک وہیں کھڑی دیکھی لہٰذا میں نے اسے میسج کیا تو اس نے کہا کہ میں آتا ہوں وہ نیچے آیا اور کہا کہ یار یہ تو بھکاری کے روپ میں مافیا ہے ،وہ بھکاری اصل بھکاری نہیں ہے بلکہ بھکاری گینگ کا حصہ ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہماری اجازت کے بغیر بھیک مانگنا جرم ہے جسکی سزا موت ہے۔

میں حیران رہ گیا خیر ہم نے ان کا پیچھا کرنے کا سوچا اور انتظار کرنے لگے کچھ دیر بعد وہ گاڑی والا ہٹاکٹا آدمی آگیا ،وہ اوپر گیا اور جیسے اس بھکاری کو نیچے لیکر اترا تو ہم اسکے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ جناب یہ گاڑی بھکاری صاحب کی ہے یا آپکی؟ اس نے ہمیں کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے ؟۔میرا دوست بولا ہم صحافی ہیں اور آپ کے اس دھندے کو بےنقاب کریں گے۔ وہ شخص زور سے ہنسا اور کہا کہ تم لوگ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ، جو کرنا ہے کرلو ۔وہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تھوڑا بیک کرکے ہماری طرف آیا اور شیشہ نیچے کرکے بولا کہ اگر زندگی پیاری ہو تو آج کے بعد ہمارا پیچھا نہ کرنا ورنہ آپ لوگوں کی لاشیں بھی نہیں ملیں گی ۔

اسکے بعد اس نے گاڑی چلادی ہم بھی اس کا پیچھا کرنے لگے لیکن اسکی رفتار ہماری رفتار سے کہیں زیادہ تھی لہٰذا وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا چونکہ ہم اس وقت جن اداروں کیساتھ اٹیچ تھے وہ بیک اپ دینے والے لوگ نہیں تھے لہٰذا ہم نے اس قصے کو ختم کرنےکا فیصلہ کیا۔ کچھ عرصے بعد پیرودھائی جاتے ہوتے ہر اشارے پر بھکاری نظر آئے ، چنانچہ ایک بار پھر اندر کا صحافی جاگا اور دوسرے دن روپ بدل کر ہم بھی بھکاری بن کر وہاں جا پہنچے ۔

ابھی تک وہاں کوئی بھکاری نہیں آیا تھا ہم مانگنے کی بجائے ان کا انتظار کرنے لگے اور جیسے ہی وہ نظر آئے ہم نے مانگنا شروع کردیا۔ جیسے سگنل کھلا دو تین بھکاری میرے قریب آئے گندی گندی گالیاں دیں اور کہا کہ دفع ہوجاؤ یہ ہمارا ایریا ہے۔ میں نے کہا کہ بھئی آپ اپنی قسمت لوگے مجھے میرے مقدر کا ملے گا میں کوئی آپ سے چھین رہا ہوں۔

وہ پھر گالیاں نکالنے لگے اور کہا کہ یہ ایسے نہیں مانے گا لگتا ہے استاد کو بلانا پڑے گا۔ دوسرے نے استاد کو چھوڑو ہم خود اسکی دھلائی کرتے ہیں اور اگر پھر بھی نہ مانا تو پھر استاد کو فون کریں گے۔ چنانچہ ان میں ایک نے میرا گریبان پکڑلیا جو پہلے ہی پھٹا ھوا تھا پھر مجھے جھنجھوڑ کر کہا کہ آخری بار کہہ رہے ہیں دفع ہوجاؤ ورنہ لاش بھی نہیں ملے گی۔ یہ وہ الفاظ تھے جو پہلے والے بھکاری اور اسکے سرپرست نے بولے تھے۔

چنانچہ میں کہا کہ میں یہاں سےجاتا ہوں لیکن آگے تو مانگ سکتا ہوں ناں ؟۔اس نے کہا پاگل سمجھ نہیں آرہی ، پیرودھائی تک سارا سیٹھ کا ایریا ہے یہاں نہیں مانگنا کہیں اور جاکر مرو۔ میں نے دھیمے لہجے میں پوچھا کہ آپ کا سیٹھ کون ہے ؟۔اس بات پہ ان تینوں نے مجھ پر حملہ کردیا اور میری خوب درگت بنائی۔ چونکہ شام کا ٹائم کسی نے ہماری طرف توجہ ہی نہیں دی۔

یہ المیہ ہے کہ لوگ اپنی دنیا سے باہر ہی نہیں آتے تبھی ان جیسے لوگ آزادانہ دنداناتے پھرتے ہیں۔ خیر میں وہاں سے نکلا اور گھر آگیا ظالموں نے خوب ٹھکائی کی تھی ساری رات درد سے سو نہ سکا۔ دوسرے دن سوچا کہ پولیس کو ساری صورتحال بتا دوں لیکن پھر ارادہ بدل دیا کہ اگر پولیس کا نظام ٹھیک ہوتا تو یہ مافیا یوں آزادانہ کام کرتا چنانچہ اسکے بعد میں نے اس مافیا کے حوالے سے چپ سادھ لی کیونکہ میں کسی ایسے ادارے کا حصہ نہیں تھا جو میری پشت مضبوط کرے ۔

میں نے اس واقعے کو بھلادیا اب الیاس ملک صاحب کی فیس بک پوسٹ کے بعد مجھے وہ واقعات یاد آئے تو سوچا کہ اس کو کالم کی شکل دوں تاکہ جو پیسے اس مافیا کی جیبوں میں جاتے ہیں وہی پیسے اگر آپ کے اپنے گلی محلے کے کسی سفید پوش کے گھر چلے جائیں تو اس کا زیادہ اجرہوگا۔

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے صاحب استطاعت لوگوں کی جانب سے صدقات و خیرات کا سلسلہ جاری ہے اور فطرانے وغیرہ بھی دیے جائیں گے خدارا یہ پیسہ کسی ایسے ضرورت مند کو دیں جو شرم کے مارے کسی سے سوال بھی نہیں کرتا لیکن اس کو ضرورت بھی ہے ہم اور آپ یقیناً اپنے گلی محلے میں ایسے سفید پوش اور غریب لوگوں کو جانتے ہوں گے جو ہمارے اس صدقات کے صحیح حقدار ہیں یا اپنے گلی محلے کی دکان پر ادھار والا رجسٹر دیکھ لیں اس رجسٹر میں آپ کو بہت سے حقدار مل جائیں گے اور ایسے کسی بھی مافیا کو نہ دیں جس سے کسی سیٹھ کی ہٹی چمکتی ہو۔

میں اس حوالے سے موجودہ کورونا کی صورتحال کی صورت میں پیدا ہونیوالے حالات پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالتا جاؤں کہ جیسے حکومت اور مخیر حضرات کی طرف سے کورونا متاثرین کی امداد کا اعلان ہوا تو کچھ مافیا نے دیہاڑی دار طبقہ کو چوک چوراہوں پر کھڑا کردیا اور وہ سارے دن کا راشن اور نقدی اس مافیا کی گھر اور جیب میں جارہی ہے۔ یہ سلسلہ اب عروج پر ہے لہٰذا ہمیں ایسے مافیا کو بھی نکیل ڈالنی ہے اور اصل حقدار تک حق پہنچانا ہے۔

Related Posts