پاکستان ماحولیاتی تنوع، موزوں آب و ہوا اور وسیع زرخیز زمین کے باوجود بدقسمتی سے دُنیا میں سب سے کم خوردنی تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل سمجھا جاتا ہے جو ملکی ضروریات کا 20 فیصد پیدا کرتا ہے۔
ملکی ضروریات کا 80 فیصد تیل یعنی 22کروڑ آبادی کی زبردست طلب پوری کرنے کیلئے پاکستان خوردنی تیل کی درآمد پر سالانہ تقریباً 4ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ماضی کی اور موجودہ حکومتیں زیتون، سورج مکھی، سویا بین، کینولا اور دیگر تیل پیدا کرنے والی فصلیں کاشت کرنے کیلئے موزوں 44 لاکھ ہیکٹر سے زائد زرخیز زمین سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔
اگر ملکی ضروریات کا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان میں خوردنی تیل کی طلب کم و بیش 50 لاکھ ٹن بنتی ہے اور ہر شہری تقریباً16 کلوگرام خوردنی تیل سالانہ کے حساب سے استعمال کرتا ہے۔ زیادہ تر تیل انڈونیشیا اور ملائشیا سے درآمد کیاجاتا ہے۔
ماضی کی بات کی جائے تو 2006 میں خوردنی تیل کی درآمدات پر پاکستان نے 6کروڑ 15 لاکھ ڈالرز خرچ کیے جو 2022 میں بڑھ کر 3.8ارب امریکی ڈالرز تک جا پہنچے۔ اگر خوردنی تیل کی قیمتوں میں سالانہ 5فیصد اضافہ ہوا تو ملکی درآمدات کے بل میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ سورج مکھی، زیتون، کینولا اور دیگر مصنوعات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجائیں گی۔
یہ خوش آئند ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان یہ چیلنج بھانپتے ہوئے خیبر پختونخوا، ضم علاقوں، بلوچستان، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں خوردنی تیل پیدا کرنے والے پودے لگا کر زیتون کیلئے ممکنہ قابلِ کاشت اراضی مکمل طور پر استعمال کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔
ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بالترتیب 1لاکھ اور 3 لاکھ ہیکٹر رقبہ بالترتیب سورج مکھی اور کینولا کی کاشت کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوئر دیر کے علاقوں میں زیتون کے ہزاروں درخت دیکھے جاسکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 20-2019 میں صرف 3 ہزار 87 ایکڑ اراضی خوردنی تیل پیدا کرنے والےپودوں کی کاشت کیلئے استعمال کی گئی تھی جو 21-2020 اور 22-2021 میں بڑھ کر بالترتیب 7 ہزار 271 اور 12 ہزار 213 ایکڑ تک جا پہنچی۔
معیشت کی موجودہ صورتحال خاصی تشویشناک ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہونے کے باعث مختلف معاشی خدشات کا سامنا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرنسی کی قدر میں بھی اضافہ مفقود نظر آتا ہے۔
ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ خوردنی تیل کے ضمن میں پاکستان کا درآمدی بل بڑھنا باعثِ تشویش ہے۔ اگر خوردنی تیل پیدا کرنے والے پودوں کی کاشت پر توجہ دی جائے تو پاکستان زرِ مبادلہ کی خاطر خواہ بچت کرسکتا ہے اور تجارتی خسارہ بھی کم ہوگا۔