نئے پاکستان کے مسائل

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پاکستان کی آبادی بڑی تعداد میں نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان میں 193 ملین نوجوان کئی چیلنجز سے دوچار ہیں اور ایک پیش گوئی کے مطابق پاکستان میں 2050ء تک نوجوانوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان دنیا کے سب سے کم عمر ممالک میں سے ایک ہے اور افغانستان کے بعد جنوبی ایشین خطے میں دوسرا سب سے کم عمر ملک ہے اوراگر کوئی مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو نوجوان طبقہ پاکستان کو بحیثیت ایک ملک کی حیثیت سے متاثر کرے گا اب اس بات پر انحصار بڑھ گیا ہے کہ ملک کس طرح معیاری تعلیم ، روزگار اور معنی خیز مواقع فراہم کرکے نوجوانوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔

پی ٹی آئی کی زیر اقتدار آنے والی حکومت بھی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہے، اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے کبھی بھی قومی تعمیر میں نوجوانوں کے “اہم” کردار کا تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ سڑکوں ، گلیوں اور عمارتوں کی بجائے انسانوں پرسرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا۔ اقتدار سنبھالنے پر عمران خان نے نوجوانوں کے لئے کچھ پروگرام شروع کیے لیکن یہ ضرورتوں اور توقعات سے بہت کم ہیں۔ اگر نوجوانوں کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لئے اہم خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کی تیاری ، ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے ، دستیاب صلاحیتوں کا بہترین استعمال اور انہیں ملازمت کی منڈی کا حصہ بنانے کے لئے نوجوانوں پر مبنی ایک جامع پالیسی وضع کرے۔ حکومت نوجوانوں کی ترقی کے لئے مناسب بجٹ مختص کرے۔ مجموعی طور پر غیر معمولی تصویر کے ساتھ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ چھوٹے عمر کے گروپ کے چھوٹے فوائد نے 20 سے 24 سال کے درمیان نوجوانوں پر مثبت اثر نہیں ڈالا۔

تعلیم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے افراد اپنی مدد آپ کے لئے دستی مزدوری کا رخ کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں کم عمری میں شادی کرلیتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ان کی تولیدی صحت پرمنفی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی کمی سے افرادی قوت میں خواتین کی شرکت پر اثر پڑتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آبادی میں تبدیلی کی وجہ سے ورکنگ عمر کی آبادی میں اضافے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ یہ سن 2010 میں 85 ملین سے 2050 میں 300 ملین ہوگئی ہے۔

پاکستان میں مرد نوجوانوں کی خواندگی کی شرح 53 فیصد تک کم ہے اور خواتین کے لئے یہ 42 فیصد کی نسبت زیادہ خراب ہے۔ مختلف کوششوں کے باوجود حکام اس بڑی تعداد میں آبادی کو تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوان معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں معاشرے کے اتار چڑھاؤ، معمولات اور قدروں سے بخوبی آگاہ نہیں کیا جاتا ۔ پاکستان میں نوجوان نسل نے ناامیدی کا احساس پیدا کیا ہے اور وہ اسکول جانے کے بجائے ان پڑھ زندگی کے طریقوں میں پھنس چکے ہیں اور ان میں سے بہت سے شناخت کے بحران سے گزر رہے ہیں۔

تعلیم ہی کلیدی حیثیت ہے جو کامیابی کی راہیں کھولتی ہے اور ثقافتی ، مذہبی اور اخلاقی اقدار کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم غربت کے خاتمے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے معیار اور ہنر پر مبنی تعلیم اب بھی ہمارے نوجوانوں کے لئے ایک خواب ہے۔

بے روزگاری ایک کثیر الجہتی اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی سیاست ، چوریوں ، معاشرتی عدم تحفظ ، لاقانونیت اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا ایک منحرف دائرہ شروع ہوتا ہے۔ بیروزگاری آج کے نوجوانوں کو سب سے بڑا مسئلہ ہے، کورونا وائرس وبائی بیماری کے تناظر میں صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ مناسب تعلیم اور ہنر کی کمی ان عوامل میں شامل ہیں جو ہماری نوجوان افرادی قوت کے ملازمت کے امکانات کو متاثر کرتی ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں شفافیت کا فقدان نوجوان تعلیم یافتہ طبقے میں مایوس کاایک بنیادی عنصر ہے۔ بھرتی کے عمل میں میرٹ کو نظرانداز کرنا بھی ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ منشیات کی لت ، جرائم اور دہشت گردی جیسی برائیوں کی طرف متوجہ ہوں۔

غربت ہمارے نوجوانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ غربت کی کمی کی وجہ سے ان میں صحت مند اور تعلیم یافتہ بچپن کا تجربہ کرنے کا بنیادی حق غائب ہے۔ گھریلو تشدد کی وجہ سے صحت کے مسائل اورخطرات میں اضافہ ہوتا ہے ،جیسے افسردگی ، طرز عمل کی خرابی اور منشیات کا استعمال مزید یہ کہ پاکستان میں خواتین کو بھی بنیادی نگہداشت کی خدمات اور طرز عمل کی پریشانیوں کے بڑھتے ہوئے خطرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کی شادی کا رواج عام ہے جو لڑکیوں پر اثر انداز ہوتا ہےاور اسے ازدوجی تشدد سے تعبیر کی جاتا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہر اور شہری مراکز میں ایک اندازے کے مطابق 12 لاکھ اسٹریٹ چلڈرن ہیں۔ اس میں بھکاری اور لاوارث بھی شامل ہیں جو اکثر بہت کم عمر ہوتے ہیں۔ امن و امان کی خرابی ان کی حالت اور خراب کردیتی ہے کیونکہ زندہ رہنے کیلئے یہ چوری اور اسمگلنگ پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بھوک ، تنہائی اور خوف کو دور کرنے کے لئے ایک بڑی تعداد آسانی سے دستیاب ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ گھریلو تشدد ، بے روزگاری ، قدرتی آفات ، غربت ، غیر مساوی صنعت کاری ، غیر منصوبہ بند تیزی سے آبادیاتی، خاندانی تقسیم اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل اسٹریٹ چلڈرنزکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے اہم عوامل ہیں۔

پاکستان میں غذائیت خصوصا بچوں میں صحت عامہ کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق تقریباً نصف بچے دائمی طور پر غذائیت کا شکار ہیں۔ قومی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تین دہائیوں سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائیت کی شرح بہت کم ہے۔اسی طرح خواتین کو بھی انیمیاکا خطرہ ہوتا ہے جس میں تقریبا ًنصف میں خون کی کمی ہوتی ہے جو عام طور پر آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ افسردگی اکثر چھوٹی عمر میں ہی شروع ہوتی ہے اور مردوں کی نسبت عام طور پر خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

نوجوانوں میں سب سے بڑا مسئلہ ان کے اور ان کے بزرگوں کے مابین رابطے کا فقدان ہے اور اسی وجہ سے نوجوان بے راہ روی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جبکہ منشیات ہمارے نوجوانوں میں سب سے عام اور بڑامسئلہ ہے۔ آج کل نوجوان نسل میں نصف نشے کی عادی ہے جبکہ سگریٹ نوشی مقبول ہے ،حکومت آئندہ 10 سے 20 سالوں میں نوجوانوں کی صلاحیتیوں کی درست انداز میں استعمال کرنے کیلئے پالیسیاں مرتب کرے وگرنہ ان نوجوانوں کو برائیوں میں گھرنے سے روکنا ناممکن ہے۔

Related Posts