صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے گزشتہ روز انتخابات کی تاریخ دے دی گئی،  جس کے نتیجے میں ملک ایک نئے سیاسی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔

حال ہی میں صدرِ مملکت نے انتخابات کے معاملے پر مشاورت کیلئے وزیرِ قانون سے ملاقات کی۔ وزیرِ قانون نے کہا کہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے بعد انتخابات کا اعلان صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ختم ہونی چاہئے، ہم اقتدار کو طول دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

سیاسی قوتوں کیلئے تشویش کا باعث یہ امر ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ فی الحال صرف مشاورت کا عمل جاری ہے لیکن دیکھنا ہوگا کہ صدرِ مملکت نے یکطرفہ طور پر الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ کیوں کیا جو موجودہ حکومت کی رائے کے خلاف ہے۔

یہی نہیں بلکہ صدر کا یہ فیصلہ خود صدر کی اپنی قانونی ٹیم کے مشورے کے بھی خلاف ہے۔ صدر کے اس اقدام سے  معاشی بے یقینی ایک بار پھر جنم لے سکتی ہے، حالانکہ اس وقت معیشت کی بحالی کے امکانات کسی حد تک سامنے آچکے ہیں۔

دوسری جانب یہ فیصلہ الیکشن کمیشن اور صدر کے مابین محاذ آرائی کا سبب بھی بننے والا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی صدر کی جانب سے ملاقات کی دعوت کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تاریخ ہم دیں گے۔

اس سے قبل بھی صدرِ مملکت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 14 مئی کے روز انتخابات کی تاریخ مقرر کی تاہم یہ فیصلہ بھی عملدرآمد سے محروم رہا۔ آئینی اعتبار سے صدرِ مملکت کے 5سال مکمل ہوچکے ہیں تاہم انہوں نے نئے صدر کی تعیناتی سے قبل کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

تحریکِ انصاف کاماننا ہے کہ اگر اسمبلی مدت سے قبل تحلیل ہوجائے تو صدرِ مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔ شاید اس کے بعد صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سوچا ہو کہ غیر یقینی صورتحال ختم کرنا اور اقتدار کی منتقلی یقینی بنانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے بعد یہ معاملہ یقین یطور پر سپریم کورٹ میں جا کر ختم ہوگا۔ سپریم کورٹ میں بھی نئے چیف جسٹس کا تقرر ہونے والا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کسی بھی نئے آئینی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Related Posts