صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ قیادت وفاقی حکومت کے عدلیہ سے تصادم سمیت دیگر فیصلوں کے خلاف جس بردباری اور متانت کا مظاہرہ کیا ہے، ماضی میں اس کی مثال شاید ہی دستیاب ہو۔
گزشتہ روز بھی صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل پر دستخط کرنے کی بجائے اسے واپس کردیا جسے ملک بھر میں عدلیہ اور مقننہ کے مابین نئی محاذ آرائی کی روک تھام کیلئے اہم اقدام قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ بل کا مقصد چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو مبینہ طور پر محدود کرنا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پراسیجر بل دستخط کیلئے صدرِ مملکت کو روانہ کیا گیا تھا، تاہم صدرِ مملکت نے تجویز کیا کہ پارلیمان اس بل پر دوبارہ غور فرمائے کیونکہ یہ بل تو باآسانی کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ بل میں چیف جسٹس سے متعلق آئینی شقیں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
آئین میں ترامیم باضابطہ قانون سازی کے ذریعے نہیں بلکہ آئینی ترمیم لا کر ہی کی جاسکتی ہے۔ دراصل ملک کے تمام تر قانون دان اور سیاسی طبقات اس بل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب پنجاب حکومت انتخابات سے گریزاں ہے۔
سپریم کورٹ نے جب صوبائی حکومت کو انتخابات کا حکم دیا تو وفاق اور پنجاب دونوں جانب سے اس کا ردِ عمل آیا جبکہ صدرِ مملکت نے بل واپس بھجوا کر حکومت اور مقننہ کے مابین تصادم کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی پریکٹس و پراسیجر کے متعلق خود قوانین بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
تکنیکی اعتبار سے پاکستانی آئین کو دنیا کے سب سے جامع آئین کی حیثیت حاصل ہے جس میں حکومت کے ڈھانچے اور افعال، شہریوں کے حقوق و فرائض اور ریاست اور عوام کے مابین تعلقات کے متعلق تمام تفصیلی دفعات موجود ہیں جسے 1973ء میں روبہ عمل لایا گیا اور اب تک اس میں کئی ترامیم کی جاچکی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نظامِ جمہوریت کے تمام ستون بشمول عدلیہ، مقننہ اور عسکری حکام اختیارات کی جنگ لڑنے کی بجائے آئینِ پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض سرانجام دیں تاکہ عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی راہ بھی کسی طرح ہموار ہوسکے۔