ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن: کیا کورونا وائرس اِس سے ختم ہوجائے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن: کیا کورونا وائرس اِس سے ختم ہوجائے گا؟
ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن: کیا کورونا وائرس اِس سے ختم ہوجائے گا؟

ملک بھر میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق 730 سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں  جن میں سے 3 افراد جاں بحق ہو گئے۔

اگر ہم دنیا بھر کے اعدادوشمار اپنے سامنے رکھیں تو دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث اب تک 13 ہزار سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 3 لاکھ 7 ہزار سے زائد لوگ اِس وبا کا شکار ہوئے ہیں۔

ہمسایہ ملک چین کی مثال سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی صوبائی حکومتوں نے یکے بعد دیگرے یہ فیصلہ کیا کہ ملک کے زیادہ سے زیادہ علاقے لاک ڈاؤن کرکے کورونا وائرس پر قابو پایا جائے۔

آج ہم اِسی موضوع پر مختلف اہم سوالات کے جوابات تلاش کریں گے جن میں سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں ممکنہ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس ختم ہوجائے گا؟ آئیے ہم اِس حوالے سے دیگر سوالات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

کیا کورونا وائرس کے اعدادوشمار درست ہیں؟ 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اعدادوشمار درست نہیں بلکہ کورونا وائرس نے اس سے کہیں زیادہ نقصان کیا ہے جتنا ہمیں معلوم ہوا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کا تکنیکی طور پر پتہ نہیں چلایا جاسکتا۔ آپ یہ معلوم نہیں کرسکتے کہ کس شخص کو واقعی کورونا وائرس لاحق ہے اور کسے نہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو اسکریننگ کا نظام کام کر رہا ہے وہ صرف یہ پتہ چلاسکتا ہے کہ کسی شخص کے جسم کا درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہے یا نہیں۔ اگر نہیں، تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہ شخص کورونا سے متاثر نہیں۔

ضروری نہیں کہ اسکریننگ کے عمل سے کامیاب گزر کر جانے والے تمام افراد کورونا وائرس سے متاثر نہ ہوں۔ دراصل وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اُس کا پتہ 2 ہفتے کے بعد چلتا ہے۔ تب تک وہ شخص دیگر درجنوں کو متاثر کر چکا ہوتا ہے۔

اٹلی اور ایران  کی بد ترین صورتحال

یورپ کو امریکا کے بعد سب سے زیادہ ترقی یافتہ براعظم کہا جاتا ہے اور اٹلی اِس کا ایک اہم ملک ہے جہاں لوگ سیروتفریح کے لیے ہمیشہ سے جاتے رہے ہیں، تاہم آج اٹلی کی صورتحال انتہائی تشویشناک بلکہ بد ترین ہے۔

ہمسایہ ملک چین نے کورونا وائرس پر لاک ڈاؤن کے ذریعے بہت حد تک قابو پا لیا ہے، تاہم اٹلی میں اِس وقت 53 ہزار 500 سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہیں جن میں سے 4 ہزار 825 ہلاک ہو گئے ہیں۔

یہ سطور تحریر کرتے وقت اٹلی میں 2 ہزار 857 افراد کی حالت وائرس کے باعث تشویشناک ہے یعنی ممکنہ طور پر انہیں وینٹی لیٹرز کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اٹلی میں میتیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں کم پڑ گئی ہیں۔

اٹلی میں میتیں فوجی ٹرکوں میں بھر کر غسل اور کفن کے بغیر دفن کرنی پڑ رہی ہیں جبکہ ایران میں بھی صورتحال اِس سے کچھ مختلف نہیں۔ ہر 10 منٹ میں ایک شخص کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہورہا ہے۔

ایران پر عائد پابندیوں کے پیشِ نظر صورتحال کی سنگینی الگ نوعیت کی حامل ہے۔ ایرانی حکومت دوائیں خریدنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ لوگ پابندیاں ہٹانے کی اپیل کر رہے ہیں، لیکن امریکا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں 20 ہزار 610 افراد کورونا وائرس کا شکار ہیں۔ 1 ہزار 556 افراد اب تک جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ کتنے مریضوں کی حالت تشویشناک ہے، یہ تفصیلات فی الحال منظرِ عام پر نہیں۔ 

پاکستان میں لاک ڈاؤن کی باتیں اور ردِ عمل 

کراچی میں جب ایک محدود پیمانے پر کاروبار بند کروائے گئے۔ شاپنگ مالز بند کردئیے گئے اور ہوٹلز کو پابند کیا گیا کہ آپ یہاں لوگوں کو بٹھا کر کھانا نہیں کھلا سکتے تو ان سب کی پریشانی قابلِ فہم تھی کیونکہ کاروبار کا بہت ہرج ہوا۔ 

 کچھ غیر ذمہ دار لوگ اِس بات پر خوش بھی ہیں۔ جب تعلیمی ادارے اور کاروبار بند کروائے گئے تو لوگ چھٹیاں منانے کے لیے مری بھی جا پہنچے جس کے بعد حکومت کو مری سیاحت کے لیے مکمل طور پر بند کرنا پڑا۔ 

لاک ڈاؤن کیوں ضروری ہے؟

کورونا وائرس انتہائی تکلیف دہ وبا ہے۔ جن لوگوں کو اِس بات کا کوئی اندازہ نہیں، انہیں چاہئے کہ دم گھٹنے سے مرنے والے افراد کی تکلیف کو ذہن میں رکھیں جبکہ کورونا وائرس کے باعث مرنے والے کی تکلیف اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ بے شک کورونا وائرس کے 80 فیصد مریض نزلہ زکام اور کھانسی کے باوجود صحت یاب ہوجاتے ہیں، تاہم جن لوگوں کی حالت بگڑتی ہے انہیں سانس لینے میں شدید تکلیف ہوتی ہے جو بالآخر ان کی جان لے کر چھوڑتی ہے۔

جب یہ مرض بگڑ جاتا ہے تو آخری طریقۂ علاج کے طور پر مریض کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کیا جاتا ہے۔ اگر وینٹی لیٹر نہ ہو تو مریض کو بچانے کا کوئی دوسرا طریقہ میڈیکل سائنس کے پاس نہیں ہے۔ 

وینٹی لیٹرز کی تعداد اور کورونا وائرس سے بچاؤ کی صورتحال

پاکستان میں اِس وقت 2 ہزار 500 وینٹی لیٹرز موجود ہیں جن میں سے 1700 صرف پنجاب میں ہیں۔ باقی صوبوں کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ اگر ہم کراچی کی بات کریں تو کراچی میں 200 سے بھی کم وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔

اِس صورتحال میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر یہ وبا بڑھی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ اِس کا شکار ہوں گے جس کے بعد سینکڑوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ فرض کریں یہ سینکڑوں  خدانخواستہ ہزاروں پر چلے گئے اور وینٹی لیٹرز کم پڑ گئے تو کیا ہوگا؟

کرفیو کے نقصانات

لاک ڈاؤن یا کرفیو کی صورتحال میں آپ کو تمام دکانیں، کاروبار اور ہر طرح کے ادارے مکمل طور پر بند نظر آتے ہیں۔ لوگ گھروں سے بلا ضرورت باہر نہیں نکل سکتے۔ بے جا میل ملاپ کی کوئی اجازت نہیں ہوتی۔ 

اِس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کے گھر میں راشن آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جیب میں پیسے ہونے کے باوجود آپ کچھ خرید نہیں سکتے۔ اس سے فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ جب کرفیو کے باعث کھانا ختم ہوا تو حکومت نے عوام کی مدد کی اور عوام نے ایک دوسرے کی مدد سے فاقہ کشی جیسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونے دی۔ 

کیا لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس ختم ہوجائے گا؟

کورونا وائرس صرف لاک ڈاؤن سے ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم سب کو ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں فاصلہ رکھ کر بات چیت، کھانستے یا چھینکتے ہوئے منہ کو ڈھکنا  اور بار بار ہاتھوں کو دھونا چاہئے۔

اگر ہم ہمسایہ ملک چین کی مثال اپنے سامنے رکھیں تو انہوں نے اِس وبا پر قابو پانے کے لیے قومی یکجہتی کا استعمال کیا۔ وہان سمیت ہر متاثرہ شہر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کردیا گیا اور وباء کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا۔

کرفیو کی صورت میں یکجہتی کی ضرورت

بے شک لاک ڈاؤن کی ضرورت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پیش آئی، تاہم پاکستان جیسا ملک ایک مکمل لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پر جو روز کے روز کمانے والے افراد ہیں ان کے گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔

اس تمام تر صورتحال میں اگر لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو تمام پاکستانی شہریوں کو مل جل کر اِس مصیبت کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ حکومتِ پاکستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے عوام کو کورونا وائرس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس تو ضرور دیا، لیکن امداد یا راشن کے حوالے سے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا۔

ہماری وزیرِ اعظم عمران خان سمیت وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے کہ کورونا وائرس جیسی وباء کا سامنا کرنے کے لیے گھر پر بیٹھے عوام کے لیے راشن کا انتظام بھی یقینی بنائیں۔ 

Related Posts