سیاسی ہارس ٹریڈنگ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیاست میں، ہارس ٹریڈنگ سے مراد عوامی مینڈیٹ کی قیمت پر خفیہ سودے میں غیر قانونی خرید اور پارلیمنٹیرین کے ووٹوں کو کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد سیاسی ہارس ٹریڈنگ کے الزامات ایک بار پھر منظر عام پر آ گئے ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے،جب پارلیمنٹیرینز کو ان کے ضمیر کے خلاف ووٹ دینے کے لیے دولت کا لالچ دیا جاتا ہے۔ یہ عمل بدعنوانی کے مترادف ہے، ہر قسم کی اخلاقیات، شرافت اور یہاں تک کہ قوم سے غداری ہے۔ بدقسمتی سے یہ سیاست کا حصہ بن چکا ہے اور جمہوری نظام پر دھبہ چھوڑ دیتا ہے۔

یہ کلچر پاکستان کی سیاست میں 90 کی دہائی میں متعارف ہوا جب بے نظیر بھٹو کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرانے کی کوششیں کی گئیں۔ بدقسمتی سے، ہم نے اس کے بعد سے ہارس ٹریڈنگ کی کئی مثالیں دیکھی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو بھی اسی طرح کے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ انہیں منتخب حکومت کے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ اس نازک اتحاد کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے جس پر وزیر اعظم اقتدار میں رہنے کے لیے انحصار کرتے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کم از کم دو درجن قانون ساز اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔

وفاداریاں بدلنے کے لیے ناجائز طریقے سے کمائی گئی رقم کا استعمال ایک مکروہ عمل ہے۔ ایسے قانون سازوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ناجائز دولت یا منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی کریں گے۔ اس سے اس پر بھی سوالیہ نشان اٹھے گا کہ ان کے حلقے ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح کے طریقوں پر کوئی قانون نہیں ہے اور قانون ساز اکثر اس سے بچ جاتے ہیں۔

حکومت کو اُس صورت میں بلیک میل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ غیر قانونی رقم کی نشاندہی اور اسے ضبط نہ کیا جائے۔ تاہم وہ اراکین اسمبلی جو آسانی سے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوچکے ہیں اور اپوزیشن سے ان کے معاملات طے ہوچکے ہیں، اس حوالے سے اصل صورتحال تحریک عدم اعتماد کے دن سامنے آئے گی کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

قانون سازوں کو اعلیٰ اخلاقی کردار، اخلاقیات اور صاف ضمیر ہونا چاہیے۔ اس برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے ووٹنگ کو جرم قرار دینے میں سخت اصلاحات لانا حکومت کی ناکامی رہی ہے۔ ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو ملک کو بحرانوں سے نکال سکیں اور کرپشن اور انتخابی جرائم میں ملوث ہونے کے بجائے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

Related Posts