موسیٰ وخضر علیہما السلام کا قصہ اور ہمارے لیے سبق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شمار اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ترین پیغمبروں اور رسل میں کیا جاتا ہے جن پر ایک الہامی کتاب اتاری گئی۔ ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ زمین پر سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص ہیں؟

کلیم اللہ علیہ السلام نے اثبات میں جواب دیا جس کے نتیجے میں اللہ کے برگزیدہ فرشتے جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ زمین پر ایک ایسا شخص ہے جو وہ علم رکھتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرکے سوال کیا کہ یہ شخص کہاں ہے؟ اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ملاقات کا طریقہ کار بتایا اور پھر آپ کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔

واضح رہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کوئی پیغمبر نہیں بلکہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے جن کی وفات ہوئی یا نہیں، اس پر آج تک علمائے کرام میں اختلاف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جنابِ خضر علیہ السلام سے درخواست کی کہ میں آپ کے پیچھے چلوں گا تاکہ وہ علم سیکھ سکوں جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے۔ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے تاہم انہیں خبردار کیا کہ جب تک اجازت نہ دی جائے، سوال نہ کریں۔ یہاں ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ علم رواداری اور کھلے ذہن کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایک شخص کو دوسرے کا نظریہ سمجھنے کیلئے صبر کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔

قرآنِ پاک میں بھی یہ قصہ مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے وہ جہاز پر سوار نہ ہوسکے تاہم غریب ملاحوں نے انہیں قبول کر لیا۔ جنابِ خضر نے ایک کشتی میں چھید کر ڈالا۔ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ آپ نے کشتی میں چھید کیوں کیا تاہم جواب دینے کی بجائے جنابِ خضر نے انہیں اپنا وعدہ یاد دلایا کہ جب تک اجازت نہ دی جائے، سوال نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ کی دونوں برگزیدہ ہستیوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس دوران ان کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی جسے خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ کے سامنے قتل کرڈالا۔ کلیم اللہ اس قتل پر سیخ پا ہو گئے اور سوال کر بیٹھے تاہم یہاں بھی حضرت خضر علیہ السلام نے انہیں اپنے سوال نہ کرنے کا وعدہ یاد دلا دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معافی مانگی اور درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میں اجازت ملنے تک سوال نہیں کروں گا، اگر دوبارہ اس شرط کی خلاف ورزی کروں تو ہمارے راستے الگ ہوں گے۔

خدائے بزرگ و برتر کی یہ دونوں برگزیدہ بندے بھوکے تھے۔ اسی دوران ان کا ایک بستی سے گزر ہوا۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے کیلئے کچھ طلب کیا تو لوگوں نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا اور تمسخر بھی اڑایا۔ جب وہ اس بستی سے نکلنے لگے تو خضر علیہ السلام نے ایک ناقص دیوار کو ٹھیک کردیا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو یقیناً اس کی اجرت لے سکتے تھے۔ یہاں حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب آپ کی اور میری راہیں جدا ہوتی ہیں۔ اب میں آپ کو وہ تمام باتیں بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔

اس قصے میں ہم تین آفتوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ پہلی مصیبت مال یا ملکیت، دوسری کسی عزیز کی جان کے ضیاع اور تیسری طویل المیعاد سہولت سے متعلق ہے۔ کشتی میں سوراخ کرنے کے بارے میں حضرت خضر علیہ السلام نے بتایا کہ اس کے ایک سے زیادہ مالکان تھے۔ حاکم اپنی فوج کیلئے تمام کشتیاں ضبط کرنے والا تھا۔ میں نے چھید کردیا تو عیب والی کشتی قبول نہیں کی جائے گی اور جابر حاکم اسے چھوڑ دے گا۔

حضرت خضر علیہ السلام کے بیان کے مطابق لڑکا بڑا ہو کر اپنے والدین کے ساتھ گستاخی کا معاملہ کرنے والا تھا جسے اللہ کے حکم سے قتل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے گا۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم صبر کریں تو اللہ تعالیٰ بہتر اجر عطا فرماتا ہے۔

تیسرے قصے کے متعلق حضرت خضر علیہ السلام نے بتایا کہ دیوار کے نیچے یتیم بچوں کے مرحوم والد نے خزانہ چھوڑ دیا تھا۔ باپ نے اپنے بیٹوں کو بتانے کا ارادہ کیا لیکن ایسا کرنے سے قبل ہی مر گیا۔ اگر خزانہ مل جاتا تو بستی والے یتیم بچوں کا مال خود لوٹ لیتے تاہم خضر علیہ السلام نے دیوار کی مرمت کرکے مال برباد ہونے سے بچا لیا۔

بنیادی طور پر حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قصے میں اہلِ ایمان کو نصیحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بہترین علم عطا فرماتا ہے اور وہ جو فیصلہ کرتا ہے، اہلِ ایمان کے حق میں وہی بہتر ہوتا ہے۔ 

Related Posts