گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو کے آزاد مانیٹرنگ بورڈ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں ایک بار پھر پولیو کیسز ابھرنے کو عدم سیاسی اتفاق اور غیر فعال ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2019 کی تیسری سہ ماہی میں 30 کیسز سامنے آئےدوسری جانب ملک بھر میں پولیو کے مزید 6نئے کیس سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں کیسز کی مجموعی تعداد 18ہو گئی ہے۔
پولیو ایک انفیکشن والی وائرل بیماری ہے جومتاثرہ فرد کومفلوج کردیتی ہے ،پاکستان اس وقت کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں ایک سنگین مسئلہ پولیو بھی ہے۔ پولیو پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے خلیوں کو متاثر کرتا ہے جس سے متاثرہ مریض کے اعضاء ہمیشہ کیلئے ناکارہ ہوجاتے ہیں تاہم پولیو ویکسین سے جسم کا مدافعتی نظام حملہ آور وائرس اورانفیکشن سے بچاتا ہے۔ بچپن میں پولیو سے بچائو کے قطرے پلا کر سدباب نہ کیا جائے تو پھر یہ مرض عمر بھر کے لئے انسانوں کو معذور کردیتا ہے۔
پولیو وبائی اور متعدی مرض ہے جو آلودگی اور تعفن سے پھیلتا ہے تاہم اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ پاکستان میں پولیو پھیلنے کی وجہ غربت وافلاس ہے تو دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں لیکن وہاں پولیو کا مرض بالکل نہیں ہے کیونکہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور ناقص سیوریج نظام پولیو کے پھیلائو کی بڑی وجوہات ہیں جن پر پاکستان میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
انسان کو زندگی بھر کیلئے معذور بنا دینے والے پولیو وائرس کی تین اقسام ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور تھری شامل ہے ،ہر سال متعدد مرتبہ مہمات کے باوجود تاحال پولیو کی تینوں اقسام کا کہر پاکستان پر برس رہا ہے ۔2015 میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ٹائپ ٹو ختم ہوگئی تھی لیکن 2019 میں ایک مرتبہ پھر ٹائپ ٹو پاکستان پر حملہ آور ہوئی جس کے 22 کیسز سامنے آئے ۔
اس وقت پوری دنیا میں تقریباً تمام ممالک میں پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن پاکستان ابھی بھی پولیو کے نئے کیسزسامنے آرہے ہیں، پاکستان میں حکومتی تبدیلی کے بعد پولیو کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا کیونکہ ہر آنیوالی حکومت اپنا یجنڈہ لیکر آتی ہے اور سیاسی نااتفاقی ملک میں پولیو کے سدباب میں رکاوٹ ہے جس کا عالمی ادارے نے بھی برملا اظہار کیا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو اس موذی مرض سے پاک کرنے کیلئے نیک نیتی کیساتھ قومی پالیسی بنائی جائے اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، پولیو ورکرز کی سیکورٹی کومزیدسخت بنایا جائے اور والدین کو ہر صورت اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا پابندبنایا جائے۔