حالیہ دنوں ملک کے پانچ شہروں کے ماحولیاتی نمونوں کے نتائج میں پولیو کا ایک بار پھر سامنے آنا پوری قوم کیلئے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے، مذکورہ رپورٹ سے واضح ہے کہ یہ متعدی بیماری دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، جو بہت ہی تشویش کی بات ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان افغانستان کے ساتھ ان آخری دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو بدستور ایک وبائی مرض اور واضح خطرے کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے پاکستان برسوں سے مسلسل کوشش کر رہا ہے مگر اس کے مکمل خاتمے کی راہ میں اب بھی عدم تحفظ، سیاسی عدم استحکام، ویکسی نیشن سے متعلق سازشی نظریات اور جھوٹی معلومات جیسی کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان رکاوٹوں نے خاص طور پر دور دراز اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں پولیو ویکسین کی ترسیل اور عوام میں قبولیت کو شدید متاثر کیا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا نخواستہ پولیو ہونے کے بعد اس کا علاج نا ممکن ہے، تاہم بروقت ویکسینیشن کے ذریعے بچوں کو اس سے بچایا جا سکتا ہے۔
2021 میں ملک بھر میں پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا، جس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ بیماری شاید جلد مکمل ختم ہوجائے گی، مگر 2022 میں اچانک 20 کیسز سامنے آئے، جو بدقسمتی سے سب کے سب شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئے۔ رواں سال 2023 میں اب تک پہلے ہی پانچ کیسز رپورٹ ہوچکے تھے کہ اب پانچ شہروں کے ماحولیاتی سروے کے نتائج نے خطرے کی سنگینی کو دوچند کر دیا ہے۔
ملک بھر میں سیوریج کے نمونوں میں جنگلی پولیو کی ایک خاص قسم کا سامنے آنا نہ صرف انسداد پولیو کی کوششوں کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں بچوں کی قوت مدافعت کی سطح میں شدید کمی پائی جاتی ہے، ایسا ہی ماحول اس متعدی بیماری کی افزائش کیلئے سازگار ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور پہلو جو معاملات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے پولیو نمونوں کے درمیان جینیاتی تعلق سامنے آیا ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ یہ وائرس سرحد پار سے منتقل ہوا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کی مشترکہ طویل سرحد پر اطراف کی آبادی کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، ایسے میں انسداد پولیو ویکسی نیشن کی مہمات کو مربوط اور ہم آہنگ بنانا بڑا چیلنج ہے، جس کیلئے موثر اقدامات اور مربوط انتظامات ناگزیر ہیں۔
ملک میں پولیو کا دوبارہ سر اٹھانا حکومت، صحت کے حکام، سیکورٹی فورسز، مذہبی رہنماؤں، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے فوری اور مربوط لائحہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ویکسی نیشن پر بھرپور توجہ دی جائے، خاص طور پر زیادہ خطرے والے علاقوں میں ویکسین سے متعلق لوگوں میں پائی جانے والی ہچکچاہٹ کو دور کیا جائے، صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنایا جائے، صاف پانی تک رسائی آسان بنائی جائے اور صحت کے مجموعی نظام کو مستحکم بنایا جائے۔ پاکستان کے بچوں کے لیے صحت مند اور پولیو سے پاک مستقبل یقینی بنانے کے لیے پولیو کے مکمل خاتمے کا متفقہ اور قومی عزم بہت ضروری ہے۔