ملک بھر میں مسلسل بارش اور سیلاب کی صورتحال کے پیشِ نظر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنا لندن کا دورہ منسوخ کردیا ہے اور سیلاب کے دوران امدادی کارروائیوں کے متعلق اجلاس طلب کر لیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اپنا سرکاری دورۂ قطر گزشتہ روز ہی مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچے تھے اور وطن واپس پہنچتے ہی سیلاب متاثرین سے متعلق اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کی۔
بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں سیلاب سے بستیوں کی بستیاں ویران ہوگئیں۔ اب تک سیلاب کے دوران 300 بچوں سمیت 900 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جو آج سے 12 سال قبل آئے ہوئے خوفناک سیلاب کی تاریخ دہراتا محسوس ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 2010 میں جو سیلاب آیا تھا اس کے دوران کم و بیش 1 ہزار 540 افراد جاں بحق جبکہ 2 ہزار 88 افراد زخمی ہوئے۔ 5 لاکھ 57 ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
موجودہ سیلاب کے دوران ایک بہت بڑا مسئلہ متعدد شہروں کا آپس میں زمینی رابطہ منقطع ہوجانا بھی ہے جس کی وجہ سے سرکاری حکام کو سیلاب سے ہونے والی اموات، گھروں کی تباہی اور دیگر حقائق کے اعدادوشمار مرتب کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔
دورۂ قطر کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے امیرِ قطر سمیت دیگر اہم قطری حکام سے ملاقاتیں کیں اور معیشت سمیت دیگر اہم شعبہ جات پر دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دورۂ قطر اربوں ڈالرز کی امداد کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے اور لندن سے بھی کچھ ایسی ہی مثبت خبریں ملنے کی توقع تھی، تاہم ملک بھر میں سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
گزشتہ روز سندھ کے دیہی علاقے سے سیلاب متاثرین کراچی پہنچ گئے جن کو سچل گوٹھ میں قائم سرکاری اسکولوں میں عارضی طور پر پناہ دے دی گئی ہے۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق نوشہرو فیروز سے ہے۔
ضلع نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور سے تعلق رکھنے والے متاثرینِ سیلاب اپنی جانیں بچا کر کراچی پہنچے تھے، ان کا کہنا تھا کہ محراب پور میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ کھانا پہلے روز تو نہیں ملا، پیر کے روز سے ملنا شروع ہوگیا ہے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت نے مخیر حضرات اور عالمی برادری سے بھی اپیل کی تھی کہ سیلاب متاثرین کی دل کھول کر مدد کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی جھگڑوں کو بھول کر سیلاب متاثرین کی بحالی پر ہر ممکن سنجیدہ اور ہنگامی اقدامات اٹھائیں تاکہ ان کے نقصانات کا بھی کسی قدر تدارک ممکن ہوسکے۔