شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان مسلم لیگ (ن) کی قیادت حاصل کرنے کے لیے کھینچا تانی غیر متوقع نہیں ہے۔جب سے نواز شریف لندن روانہ ہوئے ہیں اور دونوں نے پارٹی کو ایک مشکل میں ڈال دیا ہے جہاں سے واپسی مشکل دکھائی دیتی ہےاور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں منعقد ہونے والے آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
مسلم لیگ ن بھرپورانتخابی مہم کے باوجود آزاد کشمیر میں صرف چھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، یہاں تک کہ پیپلز پارٹی ن لیگ سے زیادہ نشستیں جیت گئی اور ن لیگ تیسرے نمبر پر رہی۔سینیٹ میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا لیکن ن لیگ سیالکوٹ میں حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی شکست سے دوچار ہوئی۔
شہباز شریف آزاد جموں کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران نمایاں طور پر غیر حاضر تھے ،انہوں نے پارٹی کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنی انتخابی حکمت عملی پر عمل نہیں کیا۔یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ شائدشہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے تاہم انہوں نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن ان کی کنارہ کشی سے پارٹی میں پھوٹ پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں اپنی شکست اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد سے ہی مسلم لیگ (ن) کو مشکلات سے دوچار ہے تاہم شہباز شریف نے اب دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ انتخابات سے پہلے اتفاق رائے پر مبنی حکمت عملی پر پہنچ جاتے تو نوازشریف چوتھی باروزیراعظم منتخب ہوسکتے تھے۔شہباز شریف کے انکشاف سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اختیارات کی جنگ کی وجہ سے دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
چوہدری نثار جیسے کئی سینئررہنما ن لیگ سے کنارہ کشی اختیارکرچکے ہیں یہاں تک کہ نواز شریف نے ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی کا سہارا لیالیکن عمران خان کے بجائے دی گئی رعایت کے بعدنواز شریف نے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی جس کے بعد اختلاف کا شکار اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت کے لیے اس وقت سے سنجیدہ چیلنج نہیں بن سکی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا خیال ہے کہ انتخابات میں شکست میں پارٹی کا کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے شہباز شریف کے دعوؤں کی تردید کی ہے اور حقائق کو ظاہر کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ پارٹی صدر کا مختلف بیان اشارہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) منقسم ہے یا شاہدخاقان عباسی مریم نوازکابیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔
حالیہ انتخابی نقصانات کے بعد مسلم لیگ (ن) اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم پارٹی کو اگلے انتخابات سے قبل ایک مربوط حکمت عملی بنانے سے پہلے اپنے اندرونی کو اختلافات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔