مسلم لیگ (ن) جو کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے ، اگلے عام انتخابات سے پہلے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اس سے پارٹی رہنماؤں خصوصاً شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جو وزیر اعظم عہدے کے امیدوار ہیں۔
مریم نواز نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اس قانون سازی کا حصہ نہیں ہیں جس نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دی۔ ان کے موقف کو حمزہ شہباز نے فوری طور پر مسترد کردیا جنہوں نے کہا کہ کوئی ابہام نہیں ہے اور یہ فیصلہ پارٹی قیادت نے کیا ہے ، جس سے شریف خاندان میں اختلافات کو تقویت ملتی ہے۔
مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی اور حمزہ کی رائے میں اختلاف ہے لیکن نواز شریف پارٹی کے لیڈر ہیں اور پارٹی کو آگے لے کر جائینگے،اگلے انتخابات سے قبل پارٹی کی حکمت عملی غیر واضح ہے۔ سینئر رہنما خواجہ آصف کا موقف ہے کہ نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ان کے مطابق کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر مریم نواز کی وزیراعظم بننے کی خواہش ہے تو دوسروں کو اسے قبول کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف کہتے ہیں کہ مریم نواز کے 2028 کے انتخابات ہیں ، اگلے انتخابات میں نہیں۔نواز شریف جو اس وقت لندن میں ہیں ان کے جلد واپس آنے کا امکان نہیں ہے جبکہ وہ عدالتوں سے نااہل ہو چکے ہیں اور اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
پارٹی کے اندر لڑائی جاری ہے اور قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت مریم نواز کو سونپ دیں گے۔حالیہ پارٹی میٹنگز میں بھی مریم نوازمرکز ی نشست پربیٹھی ہیں ۔
جاری تنازعات کے باوجود پارٹی متفق ہے کہ نواز شریف اگلے انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) سے امیدوار منتخب کریں گے۔ یہاں ایک اور سوال باقی ہے کہ کیا اسے سب قبول کریں گے؟ شہباز شریف غیر سنجیدہ لگ رہے ہیں اور اگلے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر حکومت سے مذاکرات میں فائدہ اٹھایا ہے اور امید ہے کہ وہ اگلے انتخابات سے پہلے اور بھی خرابیوں کو اجاگر کریں گے۔
یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھے گی جو کہ نوازشریف کو سیاسی منظر نامے سے نکالنے کے بعد بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔