روپیہ کی گراوٹ کے اسباب

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستانی روپیہ گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل رو بہ زوال ہے اور 2018 سے اس نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر بڑی تیزی سے کھو دی ہے۔ آخری بار 19 نومبر 2023 کو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 285.10 پر ٹریڈ ہوا، جبکہ جنوری 2018 میں ڈالر 110.41 روپے کا تھا، جس کا مطلب ہے کہ روپیہ چھ سال سے بھی کم عرصے میں 160 فیصد سے زیادہ گرا ہے، جو بہت بڑی گراوٹ ہے۔
حالیہ ہفتوں میں 7 ستمبر سے 30 اکتوبر تک روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے غیر ملکی کرنسی کمپنیوں کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن ہے تاہم بعض ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے آخر تک کریک ڈاؤن کی توجہ درآمدی افراط زر کو کم کرنے کی طرف منتقل ہو گئی، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں گراوٹ کو قدرے بریک لگ گئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے بارے میں جائز خدشات کے باعث برآمد کنندگان کو فارورڈ کور کی اجازت نہ دی گئی، جس کا ایک بار پھر روپیہ پر منفی اثر پڑا اور وہ کمزور ہونا شروع ہوگیا۔

ملکی زر مبادلہ کے ذخائر جو 23 جون کو 4 بلین ڈالر کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے، آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے 3 بلین ڈالر کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ  کی منظوری کے بعد 14 جولائی تک بڑھ کر 8,727 ملین ڈالر تک پہنچ گئے، تاہم 3 نومبر تک ایک بار پھر زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوکر تقریباً 7.5 بلین ڈالر ہوگئے۔
رواں سال کے بجٹ میں 6.35 ٹریلین روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جس میں بیرونی ذرائع سے 21 ارب ڈالر کے قرضے بھی شامل تھے، مگر عملا صورتحال یہ ہوگئی کہ کثیر جہتی اور دو طرفہ ذرائع سے مالی اعانت حاصل کرنے کی توقعات کے باوجود موڈیز کی جانب سے سستی مارکیٹ فنانسنگ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ یہ تشویش درست ثابت ہوئی، کیونکہ یورو بانڈز اور کمرشل بینکوں سے بجٹ میں قرض لینے کا عمل ابھی پورا نہیں ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موڈیز سمیت بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ کو اپ گریڈ کرنے سے گریز کیا جس سے پاکستان کی مارکیٹ فنانسنگ تک رسائی کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی۔
پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی رجحان ہے۔ روپیہ کی قدر میں تسلسل سے سامنے آنے والی کمی درحقیقت ان بنیادی ڈھانچہ جاتی اور مائیکرو اکنامک چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے جن کا پاکستان کو سامنا ہے، جیسے بلند افراط زر، بڑے پیمانے پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، کم زرمبادلہ کے ذخائر، زیادہ بیرونی قرض، کم اقتصادی ترقی اور زیادہ مالیاتی خسارہ، یہ وہ عوامل ہیں جو مل کر ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کا پورا پورا سامان کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ فی الحقیقت ایک بڑے اور سنگین مسئلے کی ظاہری علامت ہے اور وہ ہے معیشت کی بنیادوں میں موجود خرابی، اس بنیادی خرابی کو دور کرنے کے لیے حکومت، مرکزی بینک اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے جامع اور مربوط پالیسی کی ضرورت ہے، ورنہ کوئی بھی اقدام روپیہ کی گراوٹ کا عمل نہیں روک پائے گا۔

Related Posts