دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی وباء پھوٹنے پر ادویہ ساز اداروں کا سب سے اہم کام ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوتاہے اوریہ دیکھنا ہوتا ہے کہ متاثرین کو ضروری ادویات تک رسائی حاصل ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر تشخیص کرتا ہے لیکن تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے کوئی نہ کوئی دواء مریض کو تجویز کرنا ہوتی ہے۔
لیکن مریض کواگر تجویز کردہ دواء نہ مل سکے تو اس اسپتال اور ڈاکٹر کی اہمیت صفر ہوجاتی ہے۔طبیب کا کام صرف دواء تجویز کرنا ہے جبکہ علاج دواء سے ہوتا ہے اور اگر دوا ء ہی نہ ملے گی تو علاج کیسے ممکن ہے؟۔
کورونا کیخلاف جنگ میں جہاں ڈاکٹر اور طبی عملہ پہلی صف میں کھڑے ہیں وہیں ادویات بنانے اور فراہمی یقینی بنانے والے ادارے دوسری صف سنبھال رہے ہیں اور ڈاکٹرز، نرسز، لیبارٹریز اور طبی عملے کو مضبوط دفاع فراہم کررہے ہیں ۔
کورونا کی وباء ملک میں پھیلنے کے بعد بفضل خدا ابھی تک کہیں بھی کسی دواء کی فراہمی معطل یا متاثر نہیں ہوئی اور ہر جگہ مطلوبہ ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہاہے۔چونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ پریس کانفرنس میں کورونا سے بچاؤ کی ادویات کے نام لئے جانے کے بعدآجکل کچھ ادویات کابہت تذکرہ ہورہا ہے۔
جن میں ہائیڈروکسن، کلوروکین، ایریتھرومائیسن شامل ہیں لیکن سائنٹفک اعتبار سے ان ادویات کے کلینکل ٹرائل مکمل نہیں ہوئے۔فرانس میں کچھ مریضوں پر ادویات کا استعمال کیا گیا جن میں کچھ پر دواء کا مثبت اثر ہوا اور ٹھیک ہوئے جبکہ کچھ پر دواء کے مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔
اس کو میڈیکل کی زبان میں امپیریکل یوز آف آمیڈیسن کہا جاتا ہے یعنی تجرباتی طور پر کسی دواء کو استعمال کرناEmpirical Use of a Medicineکہلاتا ہے۔ڈاکٹر کی جانب سے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسی دواء سے مریض کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کو امپیریکل استعمال کہتے ہیں۔
کلوروکین ملیر یاکی قدیم دواء ہے جبکہ جدیدتحقیق کے بعد کئی نئی ادویات بن چکی ہیں، اب اکثر کمپنیوں میں کلوروکین دواء کی تیاری متروک ہوچکی ہے اور اس دواء کی تیاری کیلئے خام مال بھی دستیاب نہیں ہے۔چند کمپنیوں کے پاس قلیل مقدار میں خام مال موجود ہے جو ملیر کے علاج کیلئے دواء تیار کررہے ہیں۔
ان کی دواء کی دستیابی ممکن ہوسکتی ہے تاہم کورونا کی وباء پر قابوپانے کی جنگ کے دوران کلوروکین کے خام مال پر بھی قبضہ شروع ہوچکا ہے کیونکہ یہ ادویات کئی دہائیاں قبل استعمال ہوتی تھیں۔لوگ ادویات کا ذخیرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے دوبارہ مانگ بڑھنے پر ان ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
طب کی دنیا میں ایک لفظ PLACEBO EFFECT کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب کوئی اچھا یا بُرا اثر جو نقلی دوا دینے سے پیدا ہو مگر خود نقلی دوا کی وجہ سے نہ ہو،وہ ہوتا ہے۔پلیسبو افیکٹ کے زیر اثر کئی مریض یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہائیڈروکسن، کلوروکین، ایریتھرومائیسن کے استعمال سے ٹھیک ہوسکتے ہیں تو حقیقت میں وہ پچاس فیصد تک ٹھیک ہوبھی جائینگے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب کورونا کی روک تھام کیلئے دواء کی تیاری کیلئے تمام لوازمات کو پورا کئے بغیر یعنی دواء کی ریسرچ، ٹرائلز، ٹوکسیکولوجی،دواء دینے کے بعد کے اثرات کی جانچ ضروری ہے۔اس لئے اس دواء کیلئے تیاری سے قبل یہ تمام لوازمات پورے ہونے چاہئیں۔
ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ایک معتبر ادارہ ہے اور امید ہے کہ ڈاؤیونیورسٹی کے سائنسدان ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے اس کی آزمائش کیلئے اجازت لیں گے اور ٹرائل کے اصول وضوابط کو ضرور پورا کیا جائیگا۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں کورونا کی روک تھام کیلئے ادویات کی تیاری پر کام جاری ہے اور کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریض کا پلازما یعنی خون لیکر اس میں سے آئی جی جی اورآئی جی ایم الگ کرلیا جاتا ہے اور کورونا کے مریض کو انجیکٹ کرنے سے متاثرہ شخص کے جسم میں بیماری سے لڑنے کیلئے مزاحمت پیدا ہونے لگتی ہے۔
ادویات ساز ادارے کوئی فلاحی ادارے نہیں بلکہ منافع ساز ادارے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے،ہمارے ملک میں اسمبلیوں میں بیٹھے قانون ساز فارماکو اکنامکس سے قطعی طورپر نابلد ہیں جبکہ دنیا میں اس مقصد کیلئے باقاعدہ ماہرین امور کو ذمہ داری دی جاتی ہے جو ادویات کی قیمتوں کو تعین کرتے ہیں۔
جنہوں نے فارماکواکنامکس، فارمیسی یا معاشیات پڑھی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے فیصلہ کرنے اورقانون بنانے والوں کی فارماکو اکنامکس سے ناآشنائی اورلاعلمی کی وجہ سے کئی مشکلات درپیش ہیں حالانکہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں دنیا کی سستی ترین ادویات لوگوں کو میسر ہیں۔
پاکستان میں ادویات ساز اداروں کے حوالے سے ایک غلط تاثر بنادیا گیا ہے کہ یہ ادارے بہت زیادہ منافع کماتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، پاکستان میں جان بچانے والی ادویات انتہائی سستی ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے آسانی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔
جبکہ حکومتی ایوانوں میں شعور وآگہی سے محروم افراد فارما کمپنیوں کے مسائل اور تجاویز کو صرف نظر کردیتے ہیں، جب تک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین ایوانوں میں نہیں جائینگے معاملات بہتر ہونا ممکن نہیں ہے۔
اگر ادویہ ساز ادارے اتنے ہی منافع بخش ہوتے تو آج فارما کمپنیوں کی بھی بیرون ملک جائیدادیں ہوتیں لیکن ادویہ ساز اداروں پر ناجائز منافع خوری کا بہتان لگانے والے یہ نشاندہی نہیں کرسکتے۔دنیا کی سستی ترین دواء پاکستان میں دستیاب ہیں اور اگر ہماری ادویات موثر نہ ہوتیں تو اسپتالوں سے مریض صحت یاب ہوکر نہ نکلتے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں ادویات ساٹھ فیصد مہنگی ہیں اور بھارت میں ادویہ ساز ادارے بھاری منافع کمارہے ہیں لیکن پاکستان میں صورتحال برلکل برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی بعیدمیں پاکستان سے ادویات کے سوکیس بھر کر بھارت لیجاکر فروخت کئے جاتے تھے۔
صومالیہ، کینیا، جنوبی افریقہ اور دیگر افریقی ممالک، یمن، فلپائن، کمبوڈیا، میانمار، افغانستان میں ادویہ ساز ادارے نہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک میں ادویات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے کئی گنازیادہ اور فراہمی انتہائی مشکل ہے اور یورپ، امریکا اورترقی یافتہ ممالک میں بھی ادویات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے کئی سو گنا زیادہ ہیں۔
جبکہ ادویات ساز اداروں کی بدولت آج پاکستان میں صحت کی صورتحال اور ادویات کی قیمتیں انتہائی ارزاں ہیں۔ پاکستان کے عوام اور خواص کو ادویہ ساز اداروں کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کو انتہائی معمولی قیمتوں پر ادویات باآسانی دستیاب ہے۔
لیکن کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے ادویات ساز اداروں کو ناجائز منافع خور اورعوام کا دشمن بناکر پیش کرنے کے باعث فارما کمپنیوں کے حوالے سے عوام اور خواص میں منفی تاثر پایا جاتا ہے اور اگر پاکستان کی ادویات معیار کے اعتبار واقعی ناقص ہوتی تو اسپتالوں سے لوگ صحت یاب ہوکر نہ نکلتے۔
اس لئے پاکستانی ادویات پر سوال اٹھانا آسان ہے کیونکہ دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ادویات کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ لوگوں کا حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں 95فیصد ادویات مقامی سطح پر تیار کی جاتی ہیں جبکہ محض 5 فیصد دیگر ممالک سے منگوائی جاتی ہیں۔
ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ادویات اور ویکسینز کی تیاری کا کام جاری ہے اور بہت جلد پاکستان میں سانپ اور کتے کے کاٹنے، تشنج، خناق اورکوروناکی ادویات بنانے کیلئے تجربات کئے جارہے ہیں اور اگر یہ ٹرائلزکامیاب ہوگئے تو پاکستان کورونا وائرس کی روک تھام کے دواء تیار کرنیوالا دنیا کا پہلا ملک بن جائیگا۔