وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کی وجہ سے متاثر ہونیوالوں کی داد رسی کیلئے امداد کا اعلان کرنے کے علاوہ ایک علیحدہ فورس قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جسے ٹائیگر فورس کا نام دیا گیا ۔ کسی بھی قدرتی آفت یا مشکل میں عوام کی مدد کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن وطن عزیز میں ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کوئی بھی آزمائش آئے تو ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیمیں ہر مشکل گھڑی میں پیش پیش نظر آتی ہیں اور حکومت کے کرنے کے کام بھی این جی اوز کو کرنا پڑتے ہیں۔
حکومت کے پاس ایک واضع نظام موجود ہے اور ہر طرح کی سہولت اور افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جبکہ وہیں این جی اوز اپنے محدود وسائل کے باوجود روز اول سے غریب ونادار لوگوں کے دردرجاکر امداد فراہم کررہے ہیں لیکن حکومت وقت ہمیشہ کی طرح اپنے فرائض سے پہلوتہی برتتے ہوئے کبھی کمیٹیاں اور کبھی فورسز بنانے پر وقت صرف کررہی ہے جبکہ لوگ بھوک وافلاس کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں۔
پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو وہ کسی بھی مشکل وقت میں بلاتفریق رنگ ونسل ومذہب خدمت کرنے کی بجائے مخصوص طبقے اور اپنے ووٹرز یا سپورٹرز کو نوازنے پر توانائیاں صرف کرتی ہے اور مستحق لوگ حکومتی امداد سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد لوگوں میں ایک خوف وہراس نے جنم لیا جس کے باعث صوبوں نے لاک ڈائون کرکے عوام کو وبائی مرض سے تو کسی حد تک بچالیا لیکن ہمارے ملک میں اشرافیہ کے علاوہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جس کا گزر بسر محنت مزدوری کرکے ہوتا ہے ، حکومت نے لاک ڈائون کیا جو بلاشبہ ایک درست اقدام ہے لیکن وہ لوگ جو روز محنت مزدوری کرکے یا چھوٹے کاروبار سے کماکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہے ہیں ان کی گزراوقات کیلئے کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔
کراچی سے خیبر تک پورا ملک کورونا کے خوف سے بند ہے اور معمولات زندگی درہم برہم ہوچکے ہیں ایسے میں سب سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوا ہے، کراچی میں گزشتہ روز ایک نوجوان کی خودکشی حکومت کیلئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ اگر حکومت غریب عوام کیلئے خوراک کا بندوبست کرتی تو شائد ایک قیمتی جان ضائع نہ ہوتی جبکہ اہم بات تویہ ہے کہ وفاق اور صوبوں کی جانب سے امدادی پیکیجز کا اعلان تو سامنے آیا لیکن زمینی حقائق حکومتی دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے کسی شہر یا علاقے میں این جی اوز کے علاوہ عملی طور پر کسی سطح کوئی اقدامات دکھائی نہیں دیئے۔
پاکستان میں کوئی اعداد وشمار کا واضع نظام نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو درست اندازہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ بھی انتظامیہ کی ناکامی ہے کیونکہ ہر شہری کا پیدائش سے موت تک کا ریکارڈ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مشکل گھڑی ہو ہمارے پاس درست اعداد وشمار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے حقدار بھی حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حکومت این جی اوز پر بھروسہ نہیں کررہی کیونکہ حکومت کا ماننا ہے کہ این جی اوز کا طریقہ کار درست نہیں ہے تاہم اس وقت معروف این جی اوز کے علاوہ شوبز کے ستارے اور کھلاڑی بھی قوم کی خدمت کیلئے اپنی دروازے کھول چکے ہیں جہاں ایک منظم طریقے سے عوام کی مدد کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت این جی اوز کا بھلے گرانٹ نہ دے لیکن اس سے پہلے کہ کورونا سے زیادہ خودکشیوں سے لوگ مرنے لگیں خدارا عملی طور پر اقدامات اٹھائے جائیں،حکومت کے پاس درست اعداد وشمار نہیں تو دوسری جانب ہر سیاسی جماعت کی یوسی سطح پر ہر لیڈر وکارکن کو اپنے علاقے کے لوگوں کے حالات کا بخوبی علم ہے، الیکشن کے وقت ہر ووٹر کا کارڈ بن کر آسکتا ہے تو یہ یوسی لیڈرز اپنے علاقے کے غریب ونادار لوگوں تک راشن وضروری سامان کیونکر نہیں پہنچاسکتے۔
حکومت کمیٹیاں اور فورسز بنانے اور امداد کے دعوئوں سے آگے بڑھے کیونکہ ڈیڑھ ہفتے سے جاری لاک ڈائون نے لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے ، وزیراعظم پاکستان بلند وبانگ دعوئوں سے نکل کر عملی اقدامات اٹھائیں اور عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں۔