پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گوجرانوالہ میں ایک متاثر کن سیاسی اجتماع منعقد کیا جس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا گیا اور حکومت کے خلاف مہم تیزکرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پورے پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ کا رخ کیا۔ 11جماعتیں اس اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں اور ان پارٹیوں میں بڑی تعداد میں کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت ہے۔
بلاول بھٹو، مریم نواز اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر دیکھنا بھی غیر معمولی نظر تھا۔ اس مہم کا آغاز توٹھوس ہے لیکن دیکھنا ہوگا کہ آخر اس مہم سے کیا حاصل ہوگا۔
پی ڈی ایم قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت کے خاتمے کا وقت آگیا ہے جبکہ ن لیگ کے قائد نواز شریف نے ریاستی اداروں پر کڑی تنقید کی جس کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نوازشریف ملک میں بغاوت کی فضاء قائم کررہے ہیں۔
مریم نواز ، بلاول بھٹو اور جے یو آئی (ف) کے رہنما فضل الرحمان سمیت دیگر رہنما بھی اپنی تقاریر میں جارحانہ موڈ میں نظر آئے۔ معیشت اور دیگر مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت اپنے قیام سے اب تک مشکلات سے نبردآزما ہے اور اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کی تحریک کتنا نقصان پہنچائے گی۔
ریاستی اداروں پر تنقیدپر وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی رہنماء پی ڈی ایم قیادت کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ نواز شریف کی تقریریں نشر کرنے پر پابندی عائد ہو جائے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب فوج پرکھلے عام تنقید کی جارہی ہے جس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی، بھارتی میڈیا نے نواز شریف کے بیانیہ کی بنیاد پر پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی شروع کردی ہے۔
اپوزیشن کا دوسرا جلسہ آج کراچی میں ہے اور گوجرانوالہ میں ہونیوالی تنقید دوبارہ دہرائی جاسکتی ہے۔پیپلز پارٹی اس بار میزبان ہے اور کراچی میں کورونا کے کیسز میں اضافے کے باوجود سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کے آج کے جلسے میں بھی اداروں کی تضحیک کی جائیگی یا اپوزیشن قیادت اپنا رویہ بہتر بنائے گی کیونکہ اگر اپوزیشن اپنی موجودہ روش کو برقرار رکھتی ہے تو ملک مزید مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔