ماضی کبھی نہیں مٹتا، نہ ہی مرتا ہے اور بظاہر یہ ایک نعرہ دکھائی دیتا ہے لیکن ماضی حال کو دیکھنے کیلئے مختلف کینوس کی حیثیت رکھتا ہے جو بظاہر دور دراز اور دھندلا دکھائی دیتا ہے۔
اسے پرانی یادیں، تلخ اور میٹھی سوچ، پچھتاوے اور ادھوری خواہشات کی الماری سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس بھی ہے جیسے کسی پسندیدہ میٹھی ڈش کے آدھے حصے کو کھا لیا جائے۔
ماضی کا ایک اور رخ بھی ہے کہ انسان جہاں بھی جاتا ہے، یہ اس کے پیچھے آتا ہے، بہت سے معاملات میں اس سے پہلے ہوتا ہے۔ یہ مالک کے لیے ایک عقبی منظر کے آئینے کی طرح کام کرتا ہے لیکن پرندوں کو دیکھنے والوں اور بندر پکڑنے والوں سمیت یہ ہر ایک کیلئے ایک واضح اسکرین کا کام کرتا ہے۔
کسی بھی انسان کیلئے ماضی کی واضح یادیں قدرت کا ایک نادر تحفہ ہوتی ہیں جو چند خوش قسمت لوگوں کو دیا جاتا ہے جن میں خود کو جانچنے کی صلاحیت اور جہاں ممکن ہو اپنے راستے کی اصلاح یا تلافی کا حوصلہ ہوتا ہے۔
یہ بنیادی طور پر ایک خود ساختہ میکانزم ہے جو کسی کو غیر ضروری بوجھ ڈالنے اور جذباتی کوڑے کو وقت کے کوڑے دان میں پھینکنے کی اجازت دیتا ہے جو میموری والٹ میں روشن اور اہم واقعات کو برقرار رکھتا ہے۔
انسان جو غلطیاں ماضی میں کر چکا ہو، انہیں نہ دہرانے اور اگلی بار بہتر طریقے سے معاملات حل کرنے کے لیے اخلاقی حوصلہ ماضی سے ہی ملتا ہے۔ یادداشت ایک بڑے سائبان کی مانند ہے جو پرانی یادوں کے مرکزی ستون پر اٹھائی جاتی ہے اور دیگر سہارے جیسے یادیں، پچھتاوے، ادھوری خواہشات اور کھوئے ہوئے مواقع بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پرانی یادوں میں بہت کچھ ہے۔
انسان یادوں کے ساتھ اپنی قریب ترین جگہ تلاش کرسکتا ہے اور دوسرے ساتھی مسافروں کے مقابلے میں براہ راست ماضی کی کھڑکی کھولی بھی جاسکتی ہے۔ یادداشت بنیادی طور پر ایک بہت ہی ذاتی عمل ہے اور گزرے ہوئے وقتوں کا ایک قسم کا تیار حساب ہے، جس کا جائزہ خود شناسی، کامیابی کے دوبارہ حصول اور زیادہ تر جذبات پر مبنی تجزئیے سے لیا جاسکتا ہے۔
کبھی کبھی دوستوں یا رشتہ داروں کے درمیان آرام دہ بات چیت کے دوران، ایک پرانے اسکول کے ساتھی کا ذکر ، کسی کی الماری میں گھسنے والی پرانی دھول سے بھری چیز یا صرف انگوٹھے کے پچھلے حصے پر ٹھیک ہونے والے زخم کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے دوران ایک محرک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یادوں کاسیلاب آ جاتا ہے، ایک دور کی چمک آپ کی پوری زندگی میں روشنی بھر سکتی ہے۔
ہم نے اب تک ماضی کے متعلق جو بات کی ہے وہ ایک شخص کے گرد گھومتی ہے اور اس کی اپنی یاد کرنے اور رکھنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لیکن ماضی کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جسے عام الفاظ میں شہرت کہا جاتا ہے ۔ یہ عوامی زمرے میں آتا ہے جس میں وقت ماضی کے دوران انسان کی دسترس میں رہا ہو۔
بعض اوقات ماضی کسی کی شخصیت کا ایک لازم و ملزوم سایہ بن جاتا ہے جو سورج کی روشنی یا سائے سے متاثر نہیں ہوتا، جیسے انسان کے اردگرد ایک خاص قسم کا ہالہ قائم ہوگیا ہو۔ اس ہالے کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ آپ جتنا زیادہ دھوپ میں جائیں گے، اس سے زیادہ سایہ پیدا ہوگا اور بہت سے لوگوں کیلئے اس کا اثر بڑھتا چلا جائے گا، جس کا تعلق ان یادوں سے ہے جو انسان کے اندر غم یا خوشی پیدا کرتی ہیں۔
اگر ماضی کو پیچھے چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ تیزی سے پکڑتا ہے بلکہ بعض اوقات انسان کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ بعض اوقات رائے سازوں، سیاسی، مذہبی اور میڈیا رہنماؤن اور اسکالرز کے طرزِ عمل اور طریقہ کار کو سمجھنےمیں مدد حاصل کرنے کیلئےبھی ان کا ماضی دیکھنا ہوتا ہے جو بظاہر مبہم ہونے کے فن پر مہارت رکھتے ہیں۔
اسموک اسکریننگ اور مٹھاس میں لپٹے ہوئے الفاظ سے ان کے ارادے عیاں ہوتے ہیں۔ سامعین و ناظرین کے ذہنوں میں ان کے حقیقی ارادوں کے متعلق جان بوجھ کر ایک دھند پیدا کی جاتی ہے اور دھواں اڑانے کیلئے بعض اوقات کچھ یادیں جلائی بھی جاتی ہیں۔
مخصوص پیشوں سے متعلقہ بعض خواتین کی یادیں ان کے پیروکاروں کی طرح عیب دار یا کچی ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ انتہائی چالاکی سے اپنے ماضی کو دلکش نعروں اور جذباتی شہ سرخیوں سے دھو کر چھپانا جانتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو لوگوں کو کھوکھلے نعروں کی پیروی کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ بہت سے عوامل ہیں جن کی نشاندہی کی جاسکتی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک رہنما کیلئے عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ معاشرے سے سماجی، اقتصادی اور مؤثر تفرقہ کو دور کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ایک بااختیار فیصلہ ساز ہونا اہم ہوتا ہے۔
جہالت، غربت اور عدم تحفظ کے استحصالی سماجی امتزاج میں عام طور پر جعلی اور مشکوک کردار کے حامل مرد اور خواتین رہنما بن کر ابھرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر سیاسی اور کچھ مذہبی پلیٹ فارم کا سہارا لیتے ہیں۔ نسلی جمپنگ بورڈز سے بھی رہنما سامنے آتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی افراتفری سے رہنماؤں کی فوج جنم لے لیتی ہے یا پھر مزید چالاک لوگ اپنے پیروکاروں کو اکٹھا کرنے کیلئے بدعنوانی، ذات پات کی تفریق، نسلی محرومی یا عقیدے کی بنیاد پر تفریق جیسے سلگتے ہوئے مسائل کو اٹھاتے ہیں۔
آخر کار ایسے لوگ باقی جھوٹے رہنماؤں کی طرح نقاب پوش ڈاکو نکلتے ہیں۔ برصغیر میں خاص طور پر ایسے جعلی رہنماؤں کا ایک غول منظر عام پر آیا ہے جس نے عسکری یا سول قیادت سے قطعِ نظر ہمیں آفت سے تباہی تک پہنچا دیا۔
نتیجتاً برصغیر دھماکہ خیز مواد کا بڑا ڈھیر بن چکا ہے جو رہنما کہلانے والوں کے صرف ایک غلط قدم سے پھٹ پڑتا ہے۔
یہ ہماری تقدیر نہیں ہے ، نہ ہی یہ کوئی خدائی حکم ہے۔ ہمیں اپنی قومی دولت، عزت اور مستقبل ان بدبودار رہنماؤں کے حوالے نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلوں کو ان کے سپرد کرنا چاہئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے گمراہ کن رہنماؤں کو سینگوں سے پکڑ کر زبردست انداز میں زمیں بوس کیا جائے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قومی منظر نامے سے نکال پھینکا جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر اپنی عزتِ نفس واپس حاصل کرنا ہوگی۔
پاکستانی قوم کوعالمی سطح پر صرف اس لیے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بننا چاہئے کہ ہمارے پاس ایسے بنیاد پرست رہنما ہیں۔
اس کے باوجود ہم ایک باوقار قوم کے طور پر ابھرنے کی امید میں رہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قومی بھول بھلیوں اور کمیشن کی تاریخی کارروائیاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں کیونکہ ماضی کبھی اپنی روش نہیں بدلتا۔ یہ کبھی نہیں مرتا۔