آیا صوفیا کے طرز پر قائم خوبصورت فلسطینی مسجد کا وجود خطرے میں!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 مقبوضہ بیت المقدس (ویب ڈیسک) شمالی فلسطین کے شہر طبریا میں پون تین سو سال قبل بنائی گئی اہم تاریخی مسجد الکبیر جسے مسجد عمری بھی کہا جاتا ہے، کو اسرائیل کے دست تجاوز گر سے معدومیت کے شدید خطرے کا سامنا ہے اور اسرائیل کی انتقامی پالیسیوں کے باعث اس کے تاریخی آثار مٹنے لگے ہیں۔

تاریخی ریکارڈ اور آثار کے مطابق مسجد الکبیر فلسطین کی پرانی اور تاریخی مساجد میں شامل ہے۔ اس مسجد کی بنیاد 279 سال قبل رکھی گئی تھی۔ طبریا میں واقع یہ مسجد شام و فلسطین میں مسلمانوں کے عہد عروج کی آخری یادگار ہے۔

مسجد الکبیر کا ایک تیسرا نام الزیدانی بھی ہے، جس کی وجہ اس کے بانی ظاہر عمر الزیدانی ہیں، ان سے منسوب ہو کر اللہ تعالیٰ کا یہ خوبصورت تاریخی گھر مسجد عمری اور مسجد الزیدانی دونوں ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق ظاہر عمر الزیدانی نے یہ مسجد 1743ء میں تعمیر کی۔ فلسطین کی دیگر تاریخی مساجد کی طرح یہ مسجد بھی اپنے دور کے فن تعمیر کا عمدہ شاہ کار ہے۔ اس مسجد کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس کا بیرونی حصہ استنبول کی تاریخی مسجد جامع آیا صوفیا کےمطابق ڈیزائن کیا گیا ہے، جبکہ مسجد کا اندرونی حصہ مصر کے ممالیک شاہی خاندان کے طرز تعمیر کی جھلک پیش کرتا ہے۔

یہ مسجد دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ ایک گراؤنڈ فلو اور دوسری پہلی منزل ہے۔ مسجد کی دوسری منزل کی چھت تک پہنچنے کے لیے زینہ بنایا گیا ہے، جس میں ساٹھ سیڑھیاں ہیں۔ مسجد کی چھت پر تین چھوٹے گنبد ہیں۔

فلسطین کی بیرزیت یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے پروفیسر جمال عَمرو نے بتایا کہ مسجد الزیدانی ایک تاریخی، دینی اور ثقافتی مرکز ہی نہیں بلکہ فلسطین میں اہل اسلام کی عظمت رفتہ کی یادگار ہے۔ ان کے مطابق یہ مسجد فلسطین میں اسلامی طرز تعمیر کی سیکڑوں پرانی یادگاروں میں سے ایک ہے۔

پروفیسر جمال عَمرو نے کہا کہ مسجد الزیدانی اس وقت کھنڈر کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کے اہم حصے کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتے ہیں۔ مسجد اس حال زار کو کیسے پہنچی، اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ نے دانستہ طور پر اس کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے اور اس کی مرمت اور تزئین نو کیلئے کسی بھی قسم کے تعاون سے صہیونی انتظامیہ یکسر انکاری ہے۔

پروفیسر جمال نے کہا کہ مسجد الزیدانی کی مرمت کے واسطے بلدیہ کو فلسطینیوں کی طرف سے اجازت کے لیے کئی بار درخواست دی گئی مگرصہیونی حکام مختلف حیلے بہانوں سے درخواست مسترد کردیتے ہیں۔

القدس میں تعمیراتی امور کے تجزیہ نگار نے کہا کہ اگر اس مسجد کو اسی طرح حالات کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا تو فلسطین کا یہ خطرے سے دوچار تاریخی مقام بھی اپنا وجود کھو دے گا۔انہوں نے عالم اسلام اور عرب ممالک کو طبریا کی اس تاریخی مسجد کی طرف متوجہ کراتے ہوئے کہا کہ مسجد الزیدانی بہ زبان حال یہ کہہ رہی ہے کہ مسلم دنیا نے اسے فراموش کردیا ہے۔

جمال عمرو نے مزید کہا کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد اسرائیل نے بہت سے تاریخی مقامات کو یا تو تباہ کردیا یا انہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے کھنڈرات پر قبضے جمالیے گئے۔

جمال عمر کے مطابق اسرائیل اب تک فلسطین میں موجود 40 مساجد کا وجود مٹا چکا ہے۔ ان میں سے 20 کو قمار خانوں، جوا خانوں یا شراب خانوں، ہوٹلوں، مویشیوں کے باڑوں اور پولٹری فارموں میں تبدیل کیا گیا جب کہ 18 مساجد کو یہودی معابد میں تبدیل کردیا گیا۔

اس پس منظر میں طبریا کی مسجد الزیدانی کا تاریک مستقبل اور مٹتا وجود بھی واضح ہے۔ اسرائیل نہ صرف ان تاریخی اور دینی مقامات کی تباہی سے ایک قوم کی ثقافت اور دینی شعائر کی بے حرمتی کا مجرم ثابت ہو رہا ہے، بلکہ ساتھ ہی وہ عالمی ثقافتی ورثے کی تباہی کا بھی مجرم بن رہا ہے، اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ثقافتی تحفظ کے ادارے یونیسکو کو اسرائیل کی ان زیادتیوں اور ثقافتی تجاوزات پر نظر رکھنا ہوگی اور اسرائیل کا ہاتھ روکنا ہوگا۔

Related Posts