پاکستان کا تشخص بحال کرنے کی لائقِ تحسین کوشش

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے ، آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیا جائے گا،خود کو عاشق رسول ﷺ ثابت کرنے کیلئے حضورﷺ کی سیرت پر چلنا ہوگا۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہاں اسلام اورنبی کریم ﷺ کے نام پرلوگوں کوجلایااورماراجارہاہے ،توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے،انہیں بغیرمقدمہ چلائے جیل بھیج دیا جاتا ہے،کوئی وکیل ملزم کا کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا،جج بھی مقدمہ سننے سے گریز کرتے ہیں، دنیا کے کسی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ الزام لگانے والے خود ہی جج بن کر فیصلہ کریں۔

سانحہ سیالکوٹ نے پاکستان کے تشخص پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور پوری دنیا میں اس وقت ایک بار پھر پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کا معاملہ پوری شدت سے سامنے آیاہے تاہم اس سانحہ کے بعد ماضی کے برعکس کچھ مثبت چیزیں  بھی دیکھنے میں آئیں کہ پہلے تو ملزمان کو فوری گرفتار کیا گیا اور جو گرفت میں نہیں آئے ان کی تلاش جاری ہے ۔

اس سانحہ کے بعد پاکستان کی مذہبی قوتیں بھی پہلی بار یک زبان ہوکر واقعے کی مذمت کررہی ہیں،مفتی تقی عثمانی ،حامد سعید کاظمی ڈاکٹر قبلہ ایاز، قاری حنیف جالندھری، عبدالخبیر آزاد، حافظ طاہر اشرفی، صاحبزادہ ابوالخیر، علامہ امین شہیدی، پروفیسر ساجد میر ،علامہ عارف واحدی اور صاحبزادہ حامد رضا سمیت تمام مکاتب فکر کے علماء اور مشائخ نے سری لنکن ہائی کمشنر سے تعزیت کےدوران یک زبان ہوکر سیالکوٹ واقعے کو انتہائی قابل مذمت قرار دیا ۔

علماء و مشائخ کا کہنا تھا کہ واقعہ قرآن و سنت، آئین و قانون، جمہوریت اور پیغام پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے، ذمہ دار سخت ترین سزا کے مستحق ہیں،اسلام میں تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں اوربغیر ثبوت توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی ہے۔ماورائے عدالت قتل کا یہ بھیانک اور خوفناک واقعہ عاقبت نا اندیش عناصر کا اقدام ملک و قوم، اسلام اور مسلمانوں کی سبکی کا باعث بنا۔

سیالکوٹ کی کاروباری برادری نے سانحہ میں جان گنوانے والے جیانتھا کمارا کے اہل خانہ کو ایک لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہےجبکہ مقامی انڈسٹری سیالکوٹ نے پریانتھا کی کی تنخواہ ہمیشہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور دوسری جانب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سیالکوٹ بار ایسوسی ایشن نے سری لنکن منیجرکو بےدردی سے قتل کرنے والے ملزموں میں سے کسی ایک کا بھی کیس لڑنے سے صاف انکار کر دیاہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سانحہ سیالکوٹ نے ملکی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر بھی شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اس ایک واقعہ نے پوری قوم کو یکجا کردیا ہے اور آج تمام طبقات مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہم زبان ہیں۔

اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھاکر مثبت روایات کو پروان چڑھائے۔

Related Posts