عالمی مالیاتی فنڈ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے درمیان ٹیکس وصولیوں کا ہدف کم کرنے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ آئی ایم ایف نے 31مارچ تک 3ہزار 520 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے کا مشکل ہدف دیدیاہے تاہم ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ مزید ٹیکس لگانے کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف مزید ٹیکس لگا کر وصولیوں کا ہدف پورا کرنے پر بضد ہے جبکہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ مزید ٹیکس لگانے یا درآمدات بڑھانے سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔جنوری 2020 تک 2 ہزار 410 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جا چکا ہےجبکہ آئندہ 2 ماہ میں ایک ہزار 110 ارب روپے جمع کرنا ہونگے ،پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 5 ہزار 238 ارب کے ٹیکس ہدف میں کمی کیلئے نظر ثانی کا فیصلہ پالیسی سطح کے مذاکرات میں ہوگا۔
آئی ایم ایف آخر ہے کیا؟
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور ان کی باہمی کارکردگی زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور ان کی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نمٹنے کیلئے قرضے اور تکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے یورپی ممالک کا توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہونے کے بعد ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے یہ ادارہ وجود میں آیا۔ آئی ایم ایف تقریباً تمام ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں ۔یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑپیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
پاکستان پر مجموعی قرضوں کا بوجھ؟
پاکستان پربیرونی قرضوں کابوجھ تاریخ کی بلندترین سطح پرپہنچ چکا ہے، بیرونی قرضوں کاحجم 105 ارب ڈالرسے زائد ہوگیا ہے جس میں 11 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ان قرضوں میں پیرس کلب، آئی ایم ایف ،یوروسکوک بانڈز اور دیگر شامل ہیں جبکہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے 5ارب 80کروڑ ڈالرادا کرنے ہیں ، پاکستان ایک بار پھرآئی ایم ایف سےقرضہ لے رہا ہے جس کا حجم 6ارب ڈالر ہوگا۔ سینیٹ میں وزارت خزانہ نے بتایا پاکستان پر اس وقت 88 ارب 19 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر کےغیر ملکی قرضے ہیں، 6 مالی سالوں کے دوران 26 ارب 19 کروڑ ڈالر سے زائدکاقرض لیا گیا۔اس دوران 7 ارب 32 کروڑ ڈالر کا سود لگا جس کے بعد 6 مالی برسوں میں قرض 33 ارب 50 کروڑ ڈالرامریکی سے زیادہ ہوگیا
پاکستان کے آئی ایم ایف سے قرضے؟
پاکستان 1980 سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکا ہے،آخری مرتبہ قرضہ سال 2013ء میں قرض لیا گیا تھا جبکہ سال 2019 میں قرض کےلیے 6 ارب ڈالرز کا معاہدہ ہوچکا ہے جس کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض کی فراہمی کے ساتھ ہمیشہ سے ہدف ہوتا ہے کہ اخراجات میں کمی کے ذریعے ادائیگیوں کا توازن بحال کیا جائے۔
آئی ایم ایف سے قرضوں کی واپسی کیلئے ساڑھے تین سے 5سال کا ہدف مقرر کیا جاتا ہےتاہم آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو ملنے والے قرضے طویل ہوتے ہیں۔ سال 1980 سے سال 1995 کے درمیان پاکستان اورآئی ایم ایف 7 پروگرامز سے منسلک رہے، جن میں سے ایک کے سوا تمام قرضوں کی واپسی کی میعادایک سے دو سال رہی۔1997 سے 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے 6.4ملین کا قرض لیا گیا
پاکستان تحریک انصاف حکومت کے قرضے ؟
عمران خان حکومت نے دوست ممالک سے اگست 2018 سے ستمبر 2019 کے درمیان 1.8ارب ڈالر کے قرضے لئے جن میں چین سرِ فہرست جبکہ سعودی عرب دوسرے نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں جون 2018 سے ستمبر 2019 تک 6کھرب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں 28 فیصد یا ڈھائی کھرب کا اضافہ ہوا۔ حکومت نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 3اعشاریہ 7کھرب روپے کے قرضے لیے۔
پاکستان پر اندرونی قرضہ اور ہرپاکستانی کتنے کا مقروض؟
مقامی بینکوں سے لیئے جانیوالے مقامی قرضوں کی بات کریں تو مقامی قرض بیرونی قرض سے زیادہ ہے،پرویز مشرف کےدور سے پہلے تک یہ قرضہ 3ہزار ارب روپے تھا جو آج بڑھ کر 20ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 6ہزارارب جبکہ ن لیگ نے 9ہزار ارب روپے کے قرضے لیے۔ مشرف دور میں ہر پاکستانی 40ہزار کا مقروض تھا، پیپلز پارٹی کے دور میں 80ہزار ، ن لیگ دور میں ڈیڑھ لاکھ اور آج پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے
قرضوں کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ؟
آئی ایم ایف سے قرض لینے کے نقصانات فائدے سے کہیں زیادہ ہیں، ٹیکسز اور ڈیوٹیز اور شرح سود میں اضافہ، زرعی قرضوں میں مشکلات اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کی مراعات میں کمی یا ملازمت سے فراغت وغیرہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا حصہ ہوتی ہیں جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی ایف ایف کا بنیادی مطالبہ ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستانی روپیہ اپنی فطری سطح سے زیادہ مہنگا ہے اس لیئے اسے کم کیا جائے جبکہ گزشتہ قسط کے ساتھ پاکستان کو روپے کی قدر کم کرنا پڑی جبکہ حالیہ مذاکرات میں بھی آئی ایم ایف حکام روپے کی قدر میں مزید کمی کا مطالبہ کرینگے اور حکومت آئندہ چند ماہ میں روپے کی قدر میں مزید کمی پر مجبور ہو گی جس کی وجہ سے عام اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوگا
عوام پر اثرات؟
پی ٹی آئی حکومت کے دو ضمنی میزانیوں کے ذریعے متعدد ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ بعض نئے ٹیکس بھی لگانے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا سونامی ہر سوتباہی مچائے ہوئے ہے، آٹا، چینی، گھی ، تیل ، سبزی ، دال سمیت ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے اور حالیہ مذاکرات میں اگر آئی ایم ایف کی شرائط پر ٹیکسز بڑھائے گئے تو غربت کی مہنگائی میں پسے عوام کیلئے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا۔