ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ انڈیا جھوٹے بیانیے پر آگ سے کھیل رہا ہے، جنگ مسلط کی گئی تو تیار ہیں، پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اگر جنگ تھوپی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ انڈیا جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر آگ سے کھیل رہا ہے، ہم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار ہیں، اگر جنگ چاہیے تو جنگ ہی سہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایٹمی جنگ ’محض بیوقوفی‘ ہوگی، یہ ایسا راستہ ’باہمی تباہی‘ کا باعث بن سکتا ہے، جوہری جنگ ’ناقابل تصور اور نامعقول خیال‘ ہونا چاہیے۔ ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، جنگ مسلط کی جاتی ہے تو ہر وقت تیار ہیں، انڈیا گھمنڈ کا شکار ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت جس طرح بیانیے کو فروغ دے رہا ہے تو تنازع موجود ہے، اس تنازع میں چنگاری کسی بھی وقت ڈالی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں، ان کے درمیان فوجی تصادم ایک انتہائی بیوقوفانہ بات ہے۔ یہ ناقابل تصور ہے۔ یہ ایک غیرمعقول خیال ہے۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عرصے سے انڈیا ایک ایسی صورتحال بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں فوجی تصادم کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چند سال بعد ایک جھوٹا بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ پرانا ہو چکا ہے۔ دنیا بھی اب جان چکی ہے کہ انڈیا کا پہلے دن سے جو موقف تھا، وہ بے بنیاد تھا۔ یہ ہر کچھ عرصے بعد دہرایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حالیہ دنوں میں جو حالات بنے، اُن میں پاکستان نے ’بہت بالغ نظری سے‘ ردعمل دیا اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکا اور اگر شدت پسندی کے کسی واقعے میں کسی پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو ’ہمیں ثبوت دیے جائیں، ہم خود اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم امن کو ترجیح دیتے ہیں، ہم امن سے محبت کرتے ہیں، ہم اس وقت پاکستان میں امن کا جشن منا رہے ہیں۔ لیکن ہم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا جنگ اب بھی ایک آپشن کے طور پرموجود ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’اصل تنازع اپنی جگہ موجود ہے، اور اس میں چنگاری کسی بھی وقت ڈالی جا سکتی ہے۔ آپ حالات کو دیکھیں، 10 مئی کے بعد کتنے دن گزر چکے ہیں مگر انڈیا میں جو بیانیہ چلایا جا رہا ہے وہ اب بھی جاری ہے۔ انڈیا جس انداز میں بات چیت کر رہا ہے، وہ بنیادی طور پر اپنی داخلی سیاست کو بہتر کرنے کی کوشش لگتی ہے۔ تو کیا آپ کو وہاں کسی ذمہ دار سیاسی قیادت کی جھلک دکھائی دیتی ہے؟ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی ریاست کو ایک دہشتگرد اور ایک دہشتگردی کے واقعے نے یرغمال بنا لیا ہے۔‘
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ انڈیا کی حکومت میں ’کوئی بھی پہلگام کے واقعے سے متعلق سخت سوالات نہیں کر رہا۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ اتنا بڑا سکیورٹی لیپس آخر کیسے ہوا؟ کسی کو ان واقعات کے پیچھے موجود وجوہات کو سمجھنے میں دلچسپی نہیں۔ وہ ان آوازوں کو سننے کو تیار نہیں جو ظلم و زیادتی کی بات کر رہی ہیں۔ یہ واقعات اسی ناانصافی کا نتیجہ ہیں جو وہ خود انجام دے رہے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے دونوں ملکوں کے درمیان بیک چینل رابطوں سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’اس سوال کا جواب وزارت خارجہ دے سکتی ہے‘ اور یہ کہ ’سیاست اور سفارتکاری کے معاملات ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ ہم شراکت دار ضرور ہیں، لیکن وہاں مرکزی کردار ادا کرنے والے نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے اس تنازعے کو بہت ذمہ داری سے سنبھالا۔ چھ اور سات مئی کی رات ہم نے دفاع میں بھرپور ردعمل دیا اور ان کے چھ طیارے مار گرائے۔ ہم اس سے زیادہ بھی گرا سکتے تھے، لیکن قیادت بہت ذمہ دار تھی اور بالغ نظری سے فیصلے کر رہی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ان حملوں کے بعد جو نقصان ہوا اس کو کھلے دل سے تسلیم کیا لیکن انڈیا پاکستان کو جواب دینے سے روک نہیں پایا۔ ’کیا ہم رُکے؟ کیا انڈیا پاکستان کو چھ اور سات مئی کی رات کی کارروائی کے جواب سے روک سکا؟ نہیں۔ کیونکہ صرف وہی لوگ رُکتے ہیں جنھیں روکا جا سکتا ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نو اور دس مئی کی درمیانی رات انڈیا اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستان نے اس رات نپا تلا، مربوط اور متناسب جواب دیا یہ ایک محدود سطح پر ہماری روایتی فوجی طاقت کا استعمال تھا۔ یہ ہماری تکنیکی صلاحیت کا ایک چھوٹا لیکن نہایت مؤثر مظاہرہ تھا۔ اور اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ انڈیا نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ اچانک وہ بات چیت کی بات کرنے لگے اور کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے۔‘
اس سوال پر کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر سے متعلق بات چیت کس نے اور کب شروع کی؟ پاکستانی فوج کے ترجمان نے جواب دیا کہ چھ اور سات مئی کی رات حملوں کے بعد ’انڈیا کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہم سے رابطہ کیا اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے واضح کر دیا کہ ہم صرف اسی وقت بات کریں گے جب اپنا جواب دے چکے ہوں گے۔ ہمارا جواب دس مئی کی صبح آیا۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ ان کا فوجی ترجمان انڈین ٹی وی چینلز پر آ کر آن ریکارڈ کہتا ہے کہ وہ جنگ کو مزید بڑھانا نہیں چاہتے بشرطیکہ پاکستان مزید حملے نہ کرے۔‘
بی بی سی کی جانب سے پاکستان پر حملے کی پیشگی اطلاع کے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ انڈین میڈیا کی طرف سے چلایا جانے والا ایک مزاحیہ بیانیہ ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جہاں تک پاکستان کی مسلح افواج کا تعلق ہے، ہم اپنی انٹیلیجنس کے لیے انڈین ذرائع پر انحصار نہیں کرتے۔ ہم میڈیا کو پہلے ہی دکھا چکے ہیں کہ جب بھی ان کا کراس سیکشن ریڈار ڈرون داخل ہوتا ہے، ہمیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے۔
’انڈیا میں حد سے زیادہ خوداعتمادی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس تکبر کو ہم نے اس تنازعے کے دوران کئی سطحوں پر توڑا ہے۔ تو جب وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے پہلے سے ہمیں اطلاع دی تھی، تو ہمارا کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں۔ ہمیں معلوم ہے آپ کس قسم کے حریف ہیں اور آپ کی صلاحیتیں کیا ہیں۔ بطور فوجی میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم انھیں بہت ہی غور سے دیکھتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں؟ ہم ہمیشہ چوکنا اور تیار رہتے ہیں۔‘
ترجمان پاک فوج نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت نے بہاولپور، مرید کے اور مظفرآباد میں جن جگہوں کو نشانہ بنایا، وہ تمام مساجد تھیں۔ میڈیا کو اگلے دن ان جگہوں پر لے جایا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ رات کو وہاں دہشتگرد اور ان کے کیمپس موجود ہوں، اور چند گھنٹوں میں، سیکڑوں لوگوں کے بیچ، تمام نشانات مٹا دیے جائیں؟ ان کے پاس ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی منطق۔ حکومت پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو لے آئیں، ہم تحقیقات کریں گے۔ لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ ہم ہی تھے جو کشیدگی کو قابو میں رکھے ہوئے تھے۔ ان کی جانب سے درخواست موجود تھی اور بین الاقوامی ثالث بھی اس عمل میں شریک تھے۔ صدر ٹرمپ کی قیادت کو کریڈٹ دینا چاہیے اور یہ قابلِ تعریف ہے۔ جو بیرونی قوتیں ملوث تھیں، ان کی بھی یہی خواہش تھی، اورانڈین فریق نے بھی عوامی سطح پر کہا کہ وہ مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔ تو ہم نے کہا: کیوں نہیں؟‘
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم نے کب سے انڈیا کی خوشنودی کے لیے فیصلے کرنا شروع کر دیے؟ کہ انڈیا جو کہے، ہم وہی کرنا شروع کر دیں؟ ہم ایسا نہیں کرتے۔ انڈیا میں آج تک اور نہ آئندہ کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ ہم انڈیا کو خوش کرنے کے لیے فیصلے کریں گے۔ ہم اپنے شہدا کو عزت دیتے ہیں۔ یہ فوج، یہ حکومت، یہ ریاست صرف پاکستان کے عوام کی مقروض ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان میں کسی بھی جگہ بم گرائے اور پھر یہ دعوی کرے کہ وہاں جیش محمد کے لوگ تھے۔ ’ہمیں کوئی ثبوت دیں جو جیشِ محمد کی شمولیت کو ثابت کرے۔ وہ ثبوت لائیں۔ ثابت کریں کہ بہاولپور میں دہشتگردوں کا کوئی تربیتی کیمپ موجود ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم دہشتگردی سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نظر میں دہشتگردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ عقیدہ، نہ انسانیت سے کوئی تعلق۔ وہ انسانیت سے باہر ہوتے ہیں۔ دہشتگرد بس دہشتگرد ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی شخص کسی پاکستانی شہری کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کا ثبوت دیتا ہے، تو ہم خود کارروائی کریں گے۔