دینی مدرسے میں ثقافتی محفل کا انعقاد، بلا امتیاز مسلک لوگوں کی شرکت

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کے ممتاز دینی مدرسہ جامعہ انوار العلوم شادباغ ملیر میں سالانہ کھوار (چترالی زبان) مقابلہ نعت خوانی اور آزاد مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں سنی اور اسماعیلیہ دونوں کمیونیٹیز کے افراد نے بلا امتیاز مسلک و علاقہ شرکت کی۔

جامعہ انوار العلوم العلوم کے مدیر مولانا شفیق الرحمن گلگتی کے زیرسرپرستی یہ تقریب ہر سال منعقد ہوتی ہے، جس میں کراچی میں رہائش پذیر چترال و گلگت سے تعلق رکھنے والے کھوار بولنے والے مدارس، کالج، یونیورسٹی کے طلباء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ امسال یہ تقریب امن و محبت کے عنوان سے منعقد ہوئی۔

تقریب کے مہمان خصوصی چترال کی معروف علمی و ادبی شخصیت پروفیسر مولانا نقیب اللہ رازی تھے۔ مولانا رازی کئی کتابوں کے مصنف، صاحب دیوان شاعر اور بیک وقت کھوار اور اردو ادیب ہیں۔ مجلس کی نظامت کے فرائض کھوار زبان کے مشہور شاعر عمر حیات راسخ اور فضل رحیم بابا نے انجام دیئے۔

یہ بھی پڑھیں:

چترال میں پہلے گرلز آئس ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا

محفل کا آغاز تلاوت قرآن کے بعد مقابلہ نعت خوانی سے ہوا، جس میں مختلف مدارس کے طلباء نے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کئے۔ مقابلہ نعت خوانی میں مولانا صادق اللہ، مفتی شریف حسین مخمور اور حافظ سلمان الرحمن بالترتیب اول دوم اور سوم پوزیشن کے حقدار ٹھہرے۔ جامعہ انوار العلوم شادباغ کراچی کے مدیر و صدر مجلس نے پوزیشن ہولڈرز کو انعامی شیلڈ سے نوازا۔

آزاد مشاعرہ میں مختلف شعرائے کرام میں لطیف الرحمن لطف، اقبال الدین ہمدرد، شریف حسین مخمور، حسین ولی شاہ سمیت مختلف نو جوان شعراء نے حصہ لیا۔ اس نشست میں عالمی شہرت یافتہ کھوار گلوکار منصور علی شباب نے بھی اپنی پرسوز آواز میں میوزک کے بغیر غزل پیش کی۔
معزز مہمانوں میں چترال اور گلگت سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات میں ایڈووکیٹ صمصام علی رضا، معروف قلم کار مولانا شفیع شاہد چترالی، میجر محب الرحمن، فاتحہ خوان مزار قائد قاری شمس الدین، رستم علی خان، منصور علی شباب و دیگر شامل تھے۔

مہمان خصوصی مولانا نقیب اللہ رازی نے مجلس کی مناسبت سے اپنا کلام پیش کیا اور نوجوان شعراء کی بھرپور حوصلہ افزائ کی، انہوں نے ادب تہذیب و ثقافت پہ اپنی مختصر اور پراثر گفتگو میں کھوار اداب کی وسعت اور اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، معزز مہمان نے اس طرح کے پروگراموں کے انعقاد کو کھوار زبان کی ترویج و حفاظت کیلئے خوش آئند قرار دیا۔ تہذیب و ثقافت پر اپنی گفتگو میں مولانا رازی نے اس المیہ کا اظہار کیا کہ چترال کی تہذیب و ثقافت حیا، پاکدامنی اور شرافت میں گوندھی ہوئی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو دعوت فکر دی کہ اس بات کا ادراک رکھیں ہماری تہذیب و ثقافت اسلامی رنگ و مزاج رکھتی ہے جسے برقرار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، مولانا رازی نے کہا کہ آج کل مخلوط رقص و سرود اور صرف موسیقی کو کلی طور ہماری ثقافت کا نام دیا جارہا ہے، جو افسوسناک امر ہے۔

کراچی میں مقیم معروف قانون دان ایڈووکیٹ صمصام علی رضا نے تقریب کے انعقاد پر مدیر جامعہ کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ چترال میں محبت امن اور رواداری کے فروغ میں انہی روشن دماغ و عالی فکر علماء صلحاء کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ نوجوان علماء سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ورثۃ الانبیاء ہیں، آپ کا یہ منصب اور مقام ہے کہ عوام آپکی تقلید کرتے ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ امن محبت روادی کی زبان بولیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ میں کوئی خیر پھیلے گی تو وہ آپکی کاوش ہوگی اور اگر کوئ بدی، برائی اور عدم توازن پیدا ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوگی اسلئے کہ آپ ہمارے مقتدا ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ وہ بھی اپنی طرف سے اسی طرح کی تقریب منعقد کرینگے جس میں تمام کھوار بولنے والے محبت اور امن کی زبان کے ساتھ شریک ہونگے۔

معروف قلم کار، سینئر صحافی و مصنف مولانا محمد شفیع شاہد چترالی نے کھوار زبان وادب پر اپنی گفتگو میں کہا کہ اگر محبت کی کوئی مخصوص زبان ہوتی تو وہ چترالی یعنی کھوار زبان ہوتی۔ انہوں نے کہا یہ کھوار اپنی فطری وسعت کی بدولت ہر طرح کی تفریق کو مٹادیتی ہے، یہی وجہ ہے دنیا میں جہاں بھی کھوار بولنے والے ہوتے ہیں باہم شیر و شکر ہوتے ہیں۔ چترال میں زبانوں کے تنوع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چترال میں بولی جانے والی 14 زبانوں میں کھوار واحد زبان ہے جسے ہم اپنی قومی زبان کہہ سکتے ہیں، مولانا شفیع چترالی نے کھوار ادب کے اسلامی تشخص پر بھی پرمغز گفتگو کی۔

مجلس کے آخر میں اپنے اختتامی کلمات میں مولانا شفیق الرحمن گلگتی المعروف خطیب صاحب نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور امن و محبت اور رواداری کو پھیلانے کا پیغام دیا، انہوں نے کہ یہ پروگرام ایک عرصہ سے منعقد ہوتا آرہا ہے آئندہ بھی ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تقریب دار العلوم کراچی کے بزرگ استاد مولانا قاری حبیب اللہ چترالی کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

Related Posts