اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی فلسطین پر قبضے کے سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی رائے مانگے کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جہاں جنرل اسمبلی کی اسرائیلی کے خلاف قرار دادیں آچکی ہیں ایک اور سہی۔ انہوں نے اس سخت رد عمل کا اظہار ہفتے کے روز کیا ۔
انہوں نے کہا ‘اقوام متحدہ کا فیصلہ حقائق کو مسخ کرنے والا ہے۔ فلسطینی ہم یہودیوں کا ہے ، اس لیے یہودی قوم اپنی ہی زمین پر کیسے قبضے کی مرتکب ہو سکتی ہے۔
نیتن یاہو نے اس کے ساتھ ہی یروشلم کو بھی اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے اس موقف کا اعادہ کیا ہے جسے بین الاقوامی قوانین اور اقوم متحدہ کی قرا دادیں تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ اقوام متحدہ کا نام لیے بغیر کامل تحکمانہ انداز سے کہا ہے ‘ ہم سچ کے لیے اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
قبض سے چھٹکارا کیسے پایا جاسکتا ہے؟
اسرائیلی قابض اتھارٹی جس نے اب پورے مغربی کنارے کا اپنے ساتھ جبری الحاق کا ارادہ کر رکھا ہے اس بارے میں نیتن یاہو نے کھلے الفاظ میں تو کچھ نہیں کہا لیکن فلسطین کو یہودی قوم کی زمین قرار دینے سے صاف مطلب ہے کہ وہ فلسطین کے چپے چپے پر قبضہ جاری رکھنے کے یہودی انتہا پسندی کی سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو ان کے اس وقت اہم ترین اتحادی بھی ہیں۔
واضح رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعہ کے روز 87 ملکوں کے ووٹ کی اکثریت سے منظور کردہ اپنی قرار داد میں بین الاقوامی عدالت انصاف کو فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور یہودی بستیوں کی ناجائز تعمیر کے حوالے سے عدالتی رائے دینے کے لیے کہا ہے۔ اس قرار داد کے خلاف 26 ووٹ پڑے جبکہ 53 ملکوں نے اپنی زبان بند رکھی اور قرار داد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
نیتن یاہو جنہیں چھٹی بار انتہائی دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کی مودد سے جمعرات کے روز چھٹی بار وزیر اعظم بننے کا موقع ملا ہے اقوام متحدہ کی اس قرار داد کی پراو کرنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ بلکہ ایک طرف انہوں نے اپنے رد عمل میں یہودی قوم کو ہی فلسطینی سرزمین کا مالک قرار دیا اور دوسری طرف اقوام متحدہ کی تازہ قرار داد سمیت سالہاسال کے دوران منظور کی گئی دوسری سینکڑوں قرار دادوں کے بارے میں اپنے سخت منفی خیالات کا بھی اظہار کر دیا ہے۔
جنرل اسمبلی کی منظور کردہ نئی قرار داد میں بین الاقوامی عدالت انڈاف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ان اقدامات کا بھی جائزہ لے جو اسرائیل فلسطین کی آبادی کے اعتبار سے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس قرارداد کے بارے میں دوٹوک کہہ دیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس بے وقعت سی قرار داد کی پابندی نہیں کرے گی۔