اب تک پاک فوج نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران دہشت گردوں کے خلاف ‘ضرب عضب’ اور ‘ردالفساد’ سمیت کئی بڑے اور چھوٹے فوجی آپریشن کیے ہیں، لیکن قوم کو اب بھی بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی پالیسی میں خامیاں ہیں۔
اب ایک بار پھر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نئے سرے سے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ قوم کو گزشتہ ایک سال سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافے کا سامنا ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ روز قومی اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ارکان کو قومی سلامتی اور دہشت گردوں کے خلاف مجوزہ آپریشن کے بارے میں بریفنگ دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے اعتراف کیا کہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نے ملک میں دہشت گردوں کو دوبارہ منظم کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز ملک میں مستقل امن کے لیے تیار ہیں۔
بلاشبہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج ہے۔جو ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن دہشت گردوں کے گروہوں کے خلاف مستقل اور جامع قومی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کئی فوجی آپریشنز کے باوجود قوم کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں دہشت گردوں کی تنظیموں کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رہا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خاتمے کی ملکی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔
اگر قوم ملک میں مستقل امن چاہتی ہے تو اسے ”اچھے اور برے طالبان“ کی اپنی پالیسی کو بدلنا ہوگا اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تمام عناصر کے لیے غیر لچکدار پالیسی اپنانی ہوگی۔ ہمیں پڑوسی ملک افغانستان اور اس کے موجودہ حکمرانوں کے حوالے سے بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ابھی دو روز قبل سمرقند میں منعقدہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کی چوتھی وزارتی کانفرنس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی علاقائی امن کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جس کی پاکستان طویل عرصے سے وکالت کر رہا ہے۔
مختصر یہ کہ اگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت ملک سے دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو وہ سب سے پہلے دہشت گردوں اور ان کے اتحادی عناصر کے خلاف درست پالیسی اپنائے ورنہ دہشت گردی کے خلاف نیا فوجی آپریشن مطلوبہ نتائج نہیں دے گا۔