ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے پر نواز شریف اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ واقعات میں ایک دلچسپ موڑ تب آیا جب حکومت نے خود کو بغاوت کے مقدمے سے دور کیا ، یہ مقدمہ ایک شہری کے ذریعہ دائر کیا گیا ہے اور حکومت اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس مقدمہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم اس معاملے سے بے خبر تھے۔سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کوتنقید کا نشانہ بنانے کے بعد اب نواز شریف کو غدار کا نام دیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ متعدد وزراء نے نوازشریف پر ہندوستان کے بیانیہ کی حمایت کرنے اور مودی کے ساتھ وابستہ رہنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو غدار قرار دینے اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی بھرپور مذمت کی ہے، پچھلے دو ہفتوں سے حکومت اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کررکھی ہے اس کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کے حق میں نہیں جو مسلم لیگ (ن) کے دور کا ایک حربہ تھا۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جس شہری نے بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا ، اسے کسی نے ایسا کرنے پر اکسایا تھا یا اس نے خود یہ عمل کیا ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ مدعی مقدمہ خود کئی مقدمات میں نامزد ملزم ہے تاہم ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اوردونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کی طویل تاریخ ہے جب متضاد اور ریاستی بیانیہ سے مختلف نظریہ رکھنے والے افراد کو غدار قراردیا گیا تاہم اب وفاداری کا سرٹیفکیٹ دینے اور دوسروں کو غدار قرار دینے کا رجحان دفن ہونا چاہئے۔
سیاستدانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اس سے جمہوریت ہی کمزور ہوگی۔ قوم کو اس طرح کی سیاست سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس لئے توجہ تعمیری تنقید پر رکھنی چاہئے۔
مسلم لیگ ن کو ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ ترک کرکے سیاسی بقاء کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں فریقوں کی ریاست سے وفاداری پر سوال کرنے کی بجائے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرناچاہئے۔