قومی شناخت زوال کا شکار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سینیٹ نے شورشرابے کے دوران اسکولوں میں عربی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی قرار داد کو منظور کرلیا۔ اس بحث سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی قومی شناخت کو کیسے پروان چڑھائیں۔ نوجوانوں میں ہماری ثقافت اور عربی زبان سے متعلق بڑھتی ہوئی بے چینی ان کے کردار پر کیا اثرات مرتب کرے گی اور بحیثیت قوم ہمارے معاشرتی نظام کے تانے بانے کو کیسے نقصان پہنچے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں عربی ثقافت کی بنیاد رکھی تھی مگر اس سے بہت پہلے اس کو بیج بویا جاچکا تھا۔ آزادی کے فوری بعد ہی ملک کو ” اسلامی جمہوریہ پاکستان ” کے نام سے منسوب کرنے اور عربی کو اس کی قومی زبان  بنانے کی تحریک پیش کی گئی تھی۔ اس آرڈیننس کو سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے پیش کرنے کی تجویز دی تھی۔

اگرچہ محمد علی جناح نے ہمیشہ نظریاتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان کی بات کی تھی اور ان کے آنے والے جانشینوں نے ان کی بات کر بڑھاوا دیا۔ ہندوستان سے دشمنی کی بنیاد پر اسلام اور اردو زبان کو نئے قومی نظریے کی بنیاد قرار دیا گیا۔ پاکستان میں پہلے آئین کی منظوری مارچ 1949 کو دی گئی جس نے آئین پاکستان کی بنیاد رکھی۔ جلد ہی حکومت کی کئی بڑی شخصیات نے عربی کو قومی زبان جبکہ بنگالی اور سنسکرت رسم الخط کی جگہ عربی اور فارسی سے تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی۔

وزیراعظم ایوب خان نے سب سے پہلے پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں عربی زبان کی ترویج کا مطالبہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اسلامی دنیا کا مرکز بنانا چاہتے تھے اس مقصد کے لئے انہوں نے 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہان مملکت کی ہونے والے کانفرنس کی صدارت کی۔ اس میٹنگ کا مقصد او آئی سی کے جو ممالک تیل سےمالا مال اور جن کا خلیج عرب پر کنٹرول ہے اسے رابطے استوار کیئے جائیں تاکہ ان کی حمایت حاصل ہوسکے۔ اس کے لئے پاکستان نے عرب ممالک سے رابطوں کو تیز کردیا اور جنوبی ایشیائی ملکوں سے دوری اختیار کرلی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کوششوں کو مزید تیز کردیا اور سعودی عرب سے فنڈز جمع کیئے گئے۔

جنرل ضیاء اپنی اسلامی سوچ کے پیش نظر پاکستان کو عرب معاشرے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ لفظ خدا حافظ کو اللہ حافظ سے تبدیل کردیا گیا۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں سعودی طرز کا اسلامی نظام نافذ کیا جس پر جمہوری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بہت زیادہ شور مچایا گیا۔ یہاں تک کہ زبان کو بھی نہ بخشا گیا جس کی وجہ سے پچھلی تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم رمضان جیسے مقدس مہینے میں خلفشار کا شکار ہیں۔ سن 2000 کے اوائل میں بیشتر پاکستانی رمضان کے لئے فارسی زبان کا تلفظ استعمال کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ اس کی جگہ عربی زبان کے تلفظ “رمادان” نے لے لی اور پھر ٹیلی ویژن کے اشتہارات ، بل بورڈز ، ریسٹورانٹس ، اخبارات ، خطبات ، ٹاک شوز اور ہمارے دوستوں کے ذریعے ملنے والے پیغام میں بھی لفظ رمادان کا استعمال کیا جانےلگا۔

لوگوں کی بڑی تعداد رمضان کریم کی جگہ رمضان مبارک بولنا پسند کرتے ہیں۔ لوگوں نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں مگر اس سے پہلے جو وضو کیا جاتا وہ کیوں کیا جاتا اس حوالے سے وہ لاعلم ہیں۔ ثقافتی روایات کو پرگندہ کیا گیا یہاں تک لاہور میں شہریوں نے اپنی گاڑیوں کی نمبر پلیٹس پر ” الباکستان” لکھوا شروع کردیا۔ چونکہ عربی رسم الخط میں “پ” موجود نہیں اس لئے پنجاب کے لوگوں نے ” ال بنجاب ” لکھنا شروع کردیا ۔ بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام کے درمیان میں ” بن ” کا لفظ شامل کرلیا اور پاکستان کی سڑکوں پر عربی جبہ ایک عام روایت بن گئی۔ ہم مانتے ہیں کہ ہماری سابقہ روایات کوئی زیادہ خوشکن نہیں ، مگر دوسروں کی ثقافت کو اپنانے سے ہماری اپنی ثقافتی شناخت زوال کا شکار ہو گئی۔

پاکستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی اپنی شناخت اور روایات ہیں مگر ان سب کو پس پشت ڈال کر 1947 میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ 1948 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے جناح نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ ” اردو اور صرف اردو” پاکستان کی قومی زبان ہو گی۔ ناقدین کی جانب سے اس تقریر کو لسانیت سے تعبیر کیا گیا اور کھلے عام کہا جانے لگا کہ نسلی تعصب کا بیج بویا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں 1950 کی دہائی میں زبان کی بنیاد پرشروع ہونے فسادات کا اختتام 1971 میں بنگلادیش کی علیحیدگی پر ہوا۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے میں زبان کا دخل بنیادی وجہ لیکن ہمارے پالیسی بنانے والے اس کو سمجھنے میں ناکام رہے اور دوسروں کو خوش کرنے کے لئے قوانین منظور کرتے رہے۔

آج پاکستان کی شناخت زوال کا شکار ہے جس سے وجہ پاکستانی قوم اپنے آپ کو کمتر سمجھتی ہے ، عرب اور دیگر ممالک کے سامنے بھی پاکستانی اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ثقافت اور مذہب دو الگ الگ شناختیں ہیں۔ ایک مسلمان الاسکا اور عرب کے سحراؤں میں رہ سکتا ہے، وہاں پر ان کی شناخت ان کا مذہب نہیں بلکہ اخلاقیات اس کی پہچان بنے گی۔ دوپٹہ اور عبایا ایک اچھی خاتون اور مسلم ہونے کی پہچان نہیں ہو سکتا ، اور نہ ہی خدا اللہ سے کم اسلامی تلفظ ہے ۔ ہماری ایک متمول شناخت ہے ہمیں ایک متنوع معاشرے کو پروان چڑھانا ہے اور اپنی متنوع نسلی زبانوں ، ثقافتوں اور روایات کو منانا ہو گا اور دوسرے کے کلچر کو گلے لگانا ہوگا۔

پاکستان کے معاشرے کو عرب نائزیشن سے نکال اپنی شناخت کے پیرائے میں ڈھالنا ہوگا کیونکہ ہم اگر ان کی ثقافت کو قبول بھی کرلیں گے وہ ہمیں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ عربی زبان کو سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن ایک اچھے مسلمان ہونے کے لئے ہمیں اسلام کی آئیڈیآلوجی کو پڑھنا ہوگا ۔ ہم ایک تاریخی شناخت رکھتے تھے ، مگر اب ہم کمتر درجے کے لوگ بن چکے ہیں جن کوئی سمت نہیں۔

Related Posts