یومِ دفاعِ پاکستان پر قوم کا جوش و جذبہ اور 1965ء کی جنگ میں فوج کا کردار

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یومِ دفاعِ پاکستان پر قوم کا جوش و جذبہ اور 1965ء کی جنگ میں فوج کا کردار
یومِ دفاعِ پاکستان پر قوم کا جوش و جذبہ اور 1965ء کی جنگ میں فوج کا کردار

ملک بھر میں آج یومِ دفاعِ پاکستان ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے جس کا مقصد سن 1965ء کی جنگ میں مادرِ وطن کی حرمت پر جان دینے والے شہداء اور غازیوں کے عزم و حوصلے اور جرات و بہادری کو سلام پیش کرنا ہے۔

سن 1965ء میں ہمارے ازلی دشمن بھارت نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور مکاری کے ساتھ پاکستان پر حملہ کردیا لیکن جب پاک فوج اور پوری قوم کو مقابلے کیلئے تیار دیکھا تو حیران رہ گیا۔

آئیے ستمبر سن 1965ء میں لڑی گئی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیسا جوش و جذبہ تھا جس کی یاد ہر سال تازہ کی جاتی ہے۔

یومِ دفاعِ پاکستان اور ملی جوش و جذبہ

ہر سال 6 ستمبر کے روز  بری، بحری اور فضائی افواج کے بے مثال کارناموں کی یاد تازہ کرنے کیلئے دفاعِ پاکستان منایا جاتا ہے۔ مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ افواجِ پاکستان کیلئے مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قوم کے بیٹے بیٹیاں پاک فوج کے شہداء اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

آج بھی صبح کے وقت نمازِ فجر کی ادائیگی کے ساتھ ہی یومِ دفاعِ پاکستان منانے کا آغاز ہوگیا کیونکہ آج جب پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں دُعا کیلئے ہاتھ اٹھائے گئے تو پاکستان کے عوام نے اپنی دعاؤں میں پاک فوج کے شہید جوانوں کے ایصالِ ثواب اور اعلیٰ درجات کے حصول کو یاد رکھا۔

دُعاؤں کے ساتھ ساتھ فاتحہ اور قرآن خوانی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب منعقد ہوئی۔ ائیر فورس کے کیڈٹس نے گارڈز کے فرائض سنبھالے۔ شہداء کے مزارات پر پھول چڑھانے اور فاتحہ خوانی کی تقاریب بھی قوم کے ملی جوش و جذبے کی اہم مثال ہیں۔ 

سن 1965ء کی پاک بھارت جنگ 

سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سن 1965ء میں بھارت نے جس پاکستان پر حملہ کیا تھا، وہ صرف یہ پاکستان نہیں تھا بلکہ اِس میں موجودہ بنگلہ دیش بھی شامل ہے جسے مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ 6 ستمبر 1965ء کے روز کوئی اعلانِ جنگ کیے بغیر دشمن 600 سے زائد ٹینکس لے کر پاک بھارت سرحد عبور کرگیا۔

پاک فوج دشمن کے حملے سے پہلے ہی باخبر تھی اور انٹیلی جنس فوج کو پل پل کی خبر دے رہی تھی۔ فوجی جوان سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں پر چڑھ دوڑے اور بی آر بی نہر کے مقام پر بھارت کو پیش قدمی روکنا پڑی۔ بھارتی فوج لاہور میں داخل ہونا چاہتی تھی لیکن پاک فوج ان کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے بالکل تیار تھی۔

بھارتی فوج نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ساتھ ساتھ قصور کے تاریخی شہر میں بھی داخل ہونے کی بھرپور کوشش کی لیکن واہگہ، بیدیاں اور کھیم کرن سیکٹرز میں پاک فوج نے بھرپور مزاحمت کی اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔

دشمن کی پیش قدمی کو ناکام بناتے ہوئے پاک فوج بھارتی سرحد تک جا پہنچی اور بھارتی فوج کو کھیم کرن تک دھکیلتے ہوئے دشمن فوج پر واضح برتری حاصل کر لی۔ پاک فضائیہ نے بھارت کو سبق سکھانے کیلئے بھارت کے مختلف علاقوں پر حملے بھی کیے جس میں دشمن درجنوں طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

عالمی مبصرین کے مطابق بھارتی فضائیہ پاک فضائیہ کے مقابلے میں پسپا ہوچکی تھی۔ دوسری جانب بحری محاذ پر بھی بھارت جو کراچی کی بندرگاہ پر پیش قدمی کررہا تھا، اسے روک کر بھارتی علاقے دوارکا کے ریڈار سسٹم کو پاک بحریہ نے تباہ کردیا۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ دشمن آج بھی اس پر خون کے آنسو روتا نظر آتا ہے۔

سب سے زیادہ سبکی کا سامنا بھارت کو اُس وقت ہوا جب پاکستان نے مقامی اور عالمی میڈیا کو بلایا اور پسپا ہونے والی بھارتی فوج کے چھوڑے ہوئے ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر جنگی سازو سامان دِکھایا۔جنگ 17 روز تک جاری رہی جس میں  انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو نے پاکستان کی مدد کی۔

انڈونیشیاء نے پاکستان کی مدد کیلئے 2 آبدوزیں اور 2 عدد میزائل بردار کشتیاں روانہ کرکے حقِ دوستی ادا کردیا، تاہم پاک بھارت جنگ اُس وقت تک ختم ہوچکی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوگیا تھا۔ جنگ کے دوران بھارت کے 9 ہزار فوجی مارے گئے جبکہ پاک فوج نے دشمن کے تقریباً 70 طیارے مار گرائے۔ 

میجر عزیز بھٹی کا کردار 

سن 1928ء میں ہانگ کانگ میں پیدا ہونے والے میجر راجہ عزیز بھٹی کے نام سے کون واقف نہیں؟ آپ سن 1950ء میں پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ کا حصہ بنے اور سن 1956ء میں میجر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 6 ستمبر کو بھارتی حملے کے وقت عزیز بھٹی لاہور میں برکی کے علاقے میں کمپنی کمانڈر تھے۔

بی آر بی نہر جہاں بھارتی پیش قدمی کو روکا گیا، وہاں میجر راجہ عزیز بھٹی کی کمپنی کے 2 پلاٹون تعینات تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے دشمن کی پیش قدمی روکنے کیلئے جارحانہ پالیسی اپنائی۔ دشمن کے پاس توپ خانہ اور اسلحہ و بارود کے ساتھ ساتھ بھاری نفری بھی موجود تھی لیکن میجر عزیز بھٹی کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا۔

دشمن نے 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو اپنی پوری بٹالین کے ساتھ بھرپور حملہ کیا۔ اعلیٰ عسکری قیادت نے میجر عزیز بھٹی کو حکم دیا کہ اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ جائیں تاہم انہوں نے راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں دشمن پہلے ہی قابض تھا۔

میجر عزیز بھٹی نے نہ صرف دشمن کو قبضہ کیے گئے مقام سے باہر نکال دیا بلکہ اپنے تمام جوانوں اور گاڑیوں کو بھی نہر کے پار پہنچا دیا۔ اپنی کمپنی کو دفاع کیلئے منظم کرنے کے بعد بھی میجر عزیز بھٹی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے جہاں توپ خانے اور ٹینکوں سے گولہ بارود کی بارش ہو رہی تھی۔

موت کو سامنے دیکھ کر بھی راجہ عزیز بھٹی نے وطن کے دفاع پر کسی اور چیز کو ترجیح نہیں دی۔ اچانک دشمن کا ایک گولہ میجر عزیز بھٹی کے سینے پر لگ گیا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ یہ 12 ستمبر کا دن تھا اور 26 ستمبر 1965ء کو میجر عزیز بھٹی کو پاک فوج کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ 

اقوامِ متحدہ کا کردار

جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سن 1965ء کی جنگ ہو رہی تھی، اسی دوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2 قراردادیں منظور کی گئیں۔ قراردادوں میں پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر جنگ بند کردیں تاکہ خطے میں امن برقرار رہ سکے۔

پاکستان نے 20 ستمبر 1965ء کو سلامتی کونسل میں احتجاج بھی کیا تاہم جنگ بندی کی قرارداد اِس کے باوجود منظور ہو گئی۔ قرارداد میں پاکستان اور بھارت کو ہدایت کی گئی تھی کہ اپنی اپنی فوجیں 5 اگست 1965ء والی پوزیشن پر واپس لائیں جس کے نتیجے میں 23 ستمبر کو جنگ بند کرنی پڑی۔

ایک رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران 1 ہزار 33 پاکستانی اور 9 ہزار 500 بھارتی لوگ مارے گئے۔ 2 ہزار 171 پاکستانی اور 11 ہزار بھارتی زخمی ہوئے۔ پاکستان کے 630 اور بھارت کے 1 ہزار 700 فوجی لاپتہ بھی ہوئے۔ پاکستان کے 165 اور بھارت کے 475 ٹینک تباہ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق فضائیہ نے بھارت کے 110 جبکہ پاکستان کے 14 طیارے تباہ ہوئے۔ پاکستان نے بھارت کے 1 ہزار 600 مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا جبکہ جنگ بندی کے وقت بھارتی فوج پاکستان میں 450 مربع میل تک اندر آچکی تھی۔ 

قربانیاں اور فرائض 

واضح رہے کہ یومِ دفاعِ پاکستان منانے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بھارت کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دی جائے کیونکہ جنگ شروع کرنے کے بعد اسے ختم کرنا کسی بھی فریق کے بس میں نہیں ہوتا۔ سن 1965ء کی جنگ میں پاک فوج اور قوم نے جو قربانیاں دیں، ان کے ساتھ ساتھ کچھ فرائض بھی عائد ہوئے۔

جنگ کے بعد ہم پر عائد فرائض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جن میں امن کی خاطر جان دینے والے شہداء کے ساتھ جذباتی وابستگی بھی شامل ہے۔ راجہ عزیز بھٹی نے نشانِ حیدر پانے کیلئے شہادت قبول نہیں کی تھی بلکہ وہ وطن کے دفاع کیلئے شہید ہوئے تاکہ پاکستانی قوم چین کی نیند سو سکے۔

یومِ دفاعِ پاکستان کے موقعے پر آج ہر پاکستانی شہری کا فرض بنتا ہے کہ مادرِ وطن کیلئے جان دینے والے شہداء کی قربانیوں کو نہ بھولیں اور شہداء کے ایصالِ ثواب کیلئے قرآن خوانی، مزارات پر فاتحہ خوانی اور دیگر تقاریب کا حصہ بنتے ہوئے اپنے وطن اور   افواجِ پاکستان کے خلاف ہر قسم کے پروپیگنڈے سے بچیں۔ 

Related Posts