ماسکو بغاوت اور پرائیویٹ عسکری تنظیمیں۔پہلا حصہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یوکرین کی جنگ میں روز اوّل سے دونوں فریق پرائیویٹ عسکری تنظیموں کا بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔

یوکرین کی جانب سے دو ایسے پرائیویٹ عسکری گروپ سرگرم ہیں جس کے ارکان مختلف یورپی ممالک کے سابق فوجی ہیں۔ یہ دونوں گروپ کوئی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ نہیں رکھتے۔ ان کی کوئی پروپیگنڈا ویڈیوز بھی جاری نہیں ہوتیں۔ جس کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ یہ گروپ یوکرین کے با اثر روسی شہریوں کے قتل کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سوویت دور میں روسیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو اپنی کاروباری ضروریات یا محض تسکینِ ذوق کے تحت ملک کے دور دراز علاقوں میں جا بسی تھی۔ ان علاقوں میں یوکرین سمیت وہ تمام ریاستیں شامل ہیں جو سوویت یونین کا حصہ تھیں۔

جب سوویت یونین ٹوٹا اور نئی سرحدیں وجود میں آگئیں تو یہ روسی باشندے اپنے وطنِ اصلی سے باہر رہ گئے۔ ظاہر ہے ستر اسّی سال میں ان کی ان علاقوں میں نئی نسلیں پیدا ہوگئی تھیں۔ گھر بار اور کاروبار بھی تھے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے کہا تھا:

”سوویت یونین کا ٹوٹنا روسیوں کیلئے بیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ثات ہوا۔ کیونکہ 41 ملین روسی اپنے وطن روس سے باہر رہ گئے۔“

یہاں یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ روس کا یوکرین کے ساتھ تنازعہ محض یہ نہیں کہ یوکرین نیٹو ممبر بننے جا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ یوکرین کی 17 فیصد آبادی روسی ہے اور یہ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ ہیں جو یوکرین کے مشرقی حصے میں آباد ہیں۔ 2014ء سے مغرب کی پشت پناہی میں یوکرینی حکومت اپنی ہی اس روسی آبادی پر بمباری کرتی آئی ہے کیونکہ یہ لوگ امریکی سپانسرڈ بغاوت کے ذریعے یوکرین پر مسلط ہونے والوں کے خلاف ہیں۔

موجودہ جنگ کے آغاز سے عین قبل تک کے 7 سالوں میں یوکرینی حکومت نے امریکی سرپرستی میں تقریبا 20 ہزار یوکرینی روسی قتل کئے ہیں جو ایک بڑا قتلِ عام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوکرین میں قانون نافذ کرکے روسی زبان، کلچر اور چرچ پر پابندی عائد کردی گئی۔ اِس پابندی سے قبل ملک کی 46 فیصد آبادی روسی زبان ہی بولتی تھی۔ مضحکہ خیز بات دیکھئے کہ موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زلنسکی جب اقتدار میں آئے تو انہیں یوکرینی زبان ہی نہیں آتی تھی، یہ صرف روسی زبان جانتے تھے۔ چنانچہ سی آئی اے نے ہنگامی بنیاد پر انہیں یوکرینی زبان سکھائی۔

رپورٹس کے مطابق موجودہ جنگ میں یوکرین کی جانب سے سرگرم مغربی ممالک کے باشندوں پر مشتمل عسکری گروپ یوکرینی علاقوں میں بسی روسی آبادی کے بااثر لوگوں کے قتل کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اگر کوئی واردات ریکارڈ پر آجائے تو اس کا الزام اس یوکرینی فوج پر نہ آئے جسے 2014ء سے امریکی فوج ٹریننگ اور امریکی حکومت فنڈز اور ہتھیار فراہم کرتی آرہی ہے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ روس کی جانب سے بھی ایک پرائیویٹ عسکری گروپ سرگرم ہے۔ روس کو اس گروپ کی ضرورت یوں پڑی کہ روسی فوج کے استعمال کے حوالے سے روسی آئین بعض ایسی پابندیاں لگاتا ہے جنہیں یوکرین کی صورتحال میں بائی پاس کرنا ضروری تھا۔ یہ گروپ واگنر کے نام سے معروف ہے۔ اور یہ اس سے قبل شام میں بھی سرگرم رہ چکا ہے۔ ارب پتی روسی شہری یوگنی پریگوژن اس گروپ کے مالک ہیں اور یہ گروپ روسی وزارتِ دفاع کیلئے کرائے پر کام کرتا آیا ہے۔

اگر آپ نے یوکرین کی جنگ پر لکھے ہمارے کالم پڑھے ہوں تو ہم نے واگنر کے ذکر سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ حتٰی کہ پچھلے ماہ اِس گروپ نے ایک بہت ہی اہم یوکرینی شہر بخموت کو فتح کیا تو پوری دنیا میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا مگر ہم نے اس فتح کو موضوع ہی نہیں بنایا۔ وجہ سیدھی اور سادی سی ہے۔ ہم اصولی طور پر ہی پرائیویٹ عسکری گروپوں کے خلاف ہیں۔ اور ہم ان منافقوں میں سے نہیں جو اپنے ہاں تو پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے خلاف ہوں لیکن کسی اور ملک میں ان کے حامی ہوجائیں۔

بات صرف مذکورہ اصولی موقف کی نہیں بلکہ واگنر کے کیس میں ہمیں ایک اور بڑی گڑبڑ بھی نظر آرہی تھی۔ جب بھی کوئی ملک کوئی پرائیویٹ عسکری گروپ کھڑا کرتا ہے تو اسے بھاری ہتھیاروں سے مسلح نہیں کرتا۔ عام طور پر اس طرح کے گروپوں میں مشین گنیں، دستی بم اور راکٹ لانچر ہی مستعمل ملتے ہیں۔ لیکن واگنر کو روس نے بھاری ہتھیار بھی مہیا کر رکھے تھے جو بہت ہی خطرناک بات تھی۔ خطرے کا الارم بجاتی ایک اور بات یہ تھی کہ واگنر کا مالک ”سیٹھ“ محاذوں پر جا جا کر عسکری یونیفارم میں اپنی ویڈیوز جاری کرتا نظر آتا۔

اگر آپ غور کریں تو پاکستان ، افغانستان یا عرب دنیا میں سرگرم عسکری گروپوں کے سربراہ کبھی بھی یہ حرکت کرتے نہیں دیکھے گئے۔ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے تینوں تنظیمی سربراہ تو کبھی محاذوں پر بھی نظر نہ آئے۔ بعینہ عرب دنیا میں سرگرم تنظیموں کے سربراہ بھی محاذ سے دور رہے۔ یہ لوگ صرف پالیسی سٹیٹمنٹس اور تنظیمی کنٹرول تک رہتے آئے ہیں۔ خود کو صلاح الدین ایوبی ثابت کرنے کے چکر میں یہ کبھی نہیں پڑے۔

واگنر کا سیٹھ یوگنی پریگوژن الٹی گنگا بہا رہا تھا۔وہ دن رات خود ہی اپنے لئے پروپیگنڈے میں سرگرم تھا۔ ایک شخص اگر بھاری ہتھیاروں سے لیس ہے اور وہ خود کو رائے عامہ میں ہیرو باور کرانے کیلئے سرگرم ہے تو اس کا سیدھا سیدھا ایک ہی مطلب ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے عزائم بہت آگے کے ہیں۔ یہ کوئی ایسا ہدف رکھتا ہے جو قومی سطح کا ہے۔ چنانچہ پریگوژن کے کیس میں یہی نظر آیا۔ یوگنی پریگوژن ایک ارب پتی شخص ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پیسے کے تعاقب میں تو نہیں ہوسکتا تھا، پیسہ تو اس کے پاس پہلے ہی بہت ہے۔ اس کا ہدف کچھ اور ہی ہوسکتا تھا۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو لوگ محض دولت کے حصول پر قانع نہیں ہوپاتے ان کیلئے پیسے کے بعد اختیار اور طاقت کا حصول ہی اگلی ترجیح بن کر رہ جاتا ہے۔ اس باب میں بھی پھر مختلف ذوق پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خود مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر طاقت اور اختیار انجوائے کرنا ترجیح بنا لیتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کنگ میکر بننے میں زیادہ سرور پاتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ملک ریاض۔ سیٹھ تو پاکستان میں ملک ریاض سے بھی بڑے پائے جاتے ہیں مگر اقتدار کی راہ داریوں میں قدموں کی چاپ صرف ملک ریاض کی ہی سنائی دیتی ہے۔ پریگوژن کے معاملے میں طاقت اور اختیار کے حصول کے مشن کا پہلا اظہار یوں ہوا کہ بخموت کی فتح کے ساتھ ہی عالمی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا پریگوژن روس کا صدر بننے کی تیاری کر رہا ہے؟ ظاہر ہے یہ بحث اسی لئے چھڑی کہ پریگوژن ایک باقاعدہ مہم کی صورت اپنا بت تراشنے میں مصروف تھا مگر جلد ثابت ہوا کہ بخموت کی فتح نے اس سیٹھ کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب کردیا تھا۔ وہ تو انتخابات کے تکلف میں ہی نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اسے فتح کرنے کا چسکا لگ گیا تھا۔ سو وہ روسی اختیار بھی ”فتح“ کرنے کے عزائم کے ساتھ سامنے آیا۔ (جاری ہے)

Related Posts