سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اے پی سی کے اجلاس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، اس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے چند روز قبل فوجی قیادت کے ساتھ ایک ملاقات کی تھی۔
غیر معمولی اجلاس گلگت بلتستان کے معاملے پر ہونا تھا لیکن اس میں احتساب کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔اس میں آرمی چیف نے واضح طور پر اپوزیشن سے کہا کہ وہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج صرف دوسرے اداروں کی مدد کے لئے آتی ہے، آخر کار اپوزیشن کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور سخت پیغام دیا گیا کہ ان کے خلاف احتساب مہم جاری رہے گی۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ فضل الرحمن کے بیٹے جو اس اجلاس میں موجود تھے،انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو ہمیں پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ جے یو آئی(ف)کے سربراہ عمران خان کی حکومت کے سب سے بڑے مخالف رہے ہیں، لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ وہ کس طرح پے درپے حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی بڑی دولت اکٹھی کی جبکہ ان کا کوئی کاروبار نہیں ہے۔ ان سے آمدنی کے ذرائع اور زیادہ اثاثے رکھنے کی معلومات کے لئے نیب نے طلب کیا ہے۔ لیکن انہوں نے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ حزب اختلاف خصوصاً مسلم لیگ (ن) نے اس اجلاس کے بعد فوج کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہے، شہباز شریف اُس اجلاس میں موجود تھے اور یہ نواز شریف کے علم میں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا، انہوں نے انہیں کرپٹ قرار دے کر دعوت مسترد کردی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتوں نے فوج سے کسی قسم کی ریلیف کی درخواست کی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ احتساب کے عمل کا سامنا کرنے کے بجائے فوج کو سیاست میں شامل کرنا چاہ رہے تھے، اب یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور نواز شریف اور مریم نواز کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
مریم نواز نے اس بات کا انکار کیا تھا کہ ہمارے کسی رکن کی فوج سے ملاقات نہیں ہوئی، مگر پاک فوج کے ترجمان نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ واقعی فوجی قیادت کے ساتھ دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ن لیگ کی جانب سے فوج کی کردار کشی کی ایک مشترکہ کوشش ہے، لیکن ان سے مدد بھی طلب کرنا چاہ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کہ مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹیں اور نہ ان کی کردار کشی کریں۔