میڈیا اکثر و بیشتر اپنے وار ہم سب پر کرتا رہتا ہے۔ وار سے مراد یہاں چھری یا چاقوں سے وار نہیں بلکہ میڈیا ہم پر اپنے لفظوں سے وار کرتا ہے کیونکہ بقول میڈیا کے وہ آزاد ہے اسی لیے وہ جو چاہے جیسے چاہے بول سکتا ہو کیونکہ آزاد ملک کا آزاد میڈیا ہونے کے ناطے یہ اسکا حق ہے۔
ہمارا میڈیا اب بالکل آزاد ہے جیسے مغرب کا میڈیا آزاد ہے ۔جب بھی آزادی کا نام آتا ہے مغرب کی مثال اسی لیے دی جاتی ہے کیونکہ آزادی کا مفہوم انہوں نے ہمیں سکھایا ہے ورنہ ہمیں آزادی کے بارے میں کیا معلوم تھا۔ ہمارے میڈیا نے بڑی محنت و جدوجہد کی ہے جب جاکر وہ آزاد ہوا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہی ہمارے ملک کے ایک معروف ڈرامہ نگار نے اپنی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے(بالکل اسی طرح جس طرح میڈیا اپنا حق استعمال کرتا ہے ) ایک میڈیا چینل پر ان عورتوں کے خلاف بولا جو پاکستان میں تحریک نسواں کو فروخت کر رہی ہیں ۔
اسی دوران تحریک نسواں سے ہی تعلق رکھنے والی ایک کارکن سے تلخ کلامی ہوگئی، دوسرا واقعہ حال ہی میں پیش آیا جب ہمارے ملک کے ایک عالم دین، ایک اسلامی اسکالر نے میڈیا پر ایک پروگرام کے دوران دعا کراتے ہوئے ایک حدیث کا مفہوم بیان کیاجس میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میڈیا پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور بےحیا ئی پاکستان میں بڑھ رہی ہے۔
یہ بات جو انھوں نے کی وہ اپنی آزادی کو مدنظر رکھ کر کی لیکن ان دونوں واقعات کو لیکر میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپاہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ ان دونوں شخصیات کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا گیا ان کو برا بھلا کہا گیا اور یہاں تک مجبور کردیا گیا کہ دوسرے دن ہی ہمارے عالم دین کو میڈیا پر آکر کچھ صحافیوں سے معافی مانگنی پڑی جو نا صرف ہمارے لیے شرمناک بلکہ ہولناک بات ہے کہ ہمارا میڈیا اب اتنا آزاد اور اتنا بے لگام ہوگیا ہے کہ وہ اب ہمارے عالم دین جیسی شخصیات کے ساتھ یہ سلوک کرے گا۔
سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی ہے کیا۔ ہم جسے آزادی تصور کرتے ہیں یا ہمارا میڈیا جس کو آزاد ہونا کہتا ہے وہ مغربی آزادی کا نظریہ ہے۔ مغربی نظریہ آزادی کے مطابق ایک انسان مکمل آزاد ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی زندگی گزارے وہ جو چاہے کرے اسکی مرضی کہ وہ جو چاہے بولے اسکو کوئی روک ٹوک نہیں ۔
آزادی کا مفہوم ایسے زیادہ واضع ہوگا کہ امریکا کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی ایک تقریر میں کہاکہ “اگر کوئی ہماری دینی مقدس کتاب انجیل کو بھی کچھ بولے گا تو ہم اسے بھی کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ اسکے پاس آزادی رائے کا پورا حق ہے کہ وہ جو چاہے بولے “اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ ایک شخص کس حد تک آزاد ہے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ جو میڈیا دن رات مغرب کی آزادی کو آئیڈیل بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ میڈیا کیوں دو لوگوں کے بولنے پر آگ بگولہ ہوگیا ۔ کیا صرف میڈیا آزاد ہے ،کسی کو کچھ بھی بولنے کا حق کیا صرف میڈیا کو ہی ہے یا وہ آزادی کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ہم کسی کی بات کو صحیح یا غلط کہہ سکتے لیکن اگر ہم آزادی کی بات کر رہے ہیں تو اسکے نظریہ کے مطابق ہم کسی کی بات سے اختلاف کرکے اس سے معافی نہیں منگواسکتے ، کسی سے بدتمیزی نہیں کر سکتے ہیں ، اگر ہم آزاد معاشرے کی بات کرتے ہیں تو وہاں ہر شخص کو آزادی را ئے کا حق ہے ہم کسی کے نظریہ سے اختلاف نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر ہمارا میڈیا آزادی کے نظریہ کو سمجھتا ہے تو پھر ایسا کیوں ہوا ۔ یہاں لڑائی ایک ڈرامہ نگار یا ایک عورت کے درمیان نہیں تھی یہاں لڑائی ایک عالم دین یا کچھ اینکرز کے درمیان نہیں تھی یہاں تضاد تھا دو نظریوں کے درمیان ، یہاں لڑائی ہے مغرب اور مشرقی معاشرے کے درمیان ۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے میڈیا کو کون چلا رہاہے ۔
مغربی ایجنڈا جو دن رات کوششوں کے بعد میڈیا کو اس مقام پر لے کر آیا ہے وہ کیسے برداشت کرے گا کے کوئی انکے خلاف جاکر بول سکے۔ اب ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ نا ہی میڈیا آزاد ہے اور نا ہی ہم۔ میڈیا کو مغربی نظریہ آزادی نے جکڑا ہوا ہے اور ہمارے دماغوں کو میڈیا نے اپنے قابو میں کیا ہواہے اسی لیے میڈیا اور ہم کچھ بھی اپنی مرضی سے بولنے سے قاصر ہیں۔
مغربی نظریہ آزادی کو ہمارے میڈیا کے ذریعہ ہم تک پہنچایاجارہا ہے ۔ہم تک صرف بے حیائی پہنچائی جارہی ہے ، آزادی کے نام پر عورتوں کو مجبور کیاجارہا ہے کہ وہ گھروں سے با ہر نکلیں ، انکو میڈیا کے ہی ذریعہ مردوں سے بغاوت کرنے پر اکسایا جارہا ہے ، خبریں بھی ہم تک صرف وہی پہنچائی جاتی ہیں جس سے میڈیا کے اثاثوں میں اضافہ ہو۔ اب اگر ان سب باتوں کے خلاف جاکر کوئی بولنے کی ہمت کر لے تو اسکے ساتھ ویسے ہی سلوک کیا جاتا ہے جو ان دو شخصیات کے ساتھ کیا گیا ہے۔
میڈیا نے آزادی کے نام پر ہم سے ہمارے بولنے کا حق بھی چھین لیا ہے ،ہمیں بالکل بے بس کردیا ہے۔ میڈیا پر صرف خاموشی کا نظریہ اپنا لیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص انکے مقصد کے خلاف جاکر بولے تو اسکی آواز دبا دو تاکہ آہستہ آہستہ اسکی آواز کہیں گم ہوجائے۔
اسی آزادی کے نام پر میڈیا کے وار ہم پر تیز ہوتے جارہے ہیں اور یہ جرات بھی ہم ہی نے میڈیا کو دی ہے کیونکہ ہم میڈیا کی ہر خبر پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں اور اسکے خلاف کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں کرتے ہیں ۔
اب ہمیں فیصلہ خود کرنا ہے کہ آزادی کے نام پر ہمیں میڈیا کے وار سہنے ہیں کہ وہ دین کے عالموں کو ہمارے سامنے اس طرح بے عزت کرتا رہے یا ہمیں خاموشی کے نظریہ کو توڑ کر اپنی آواز بلند کرنی ہے۔