ریاست کا چوتھا ستون اور حکومت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ماس کمیونیکیشن کے شعبے میں گریجویشن کا حامل ہونے کے ناطے میں ریاست کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کا مطالعہ کرنے، جائزہ لینے اور سمجھنے پر مجبور ہوا جس سے پتہ چلا کہ ہماری زندگیوں پر اس شعبے کا اثر کتنا گہرا اور مؤثر ہے۔ ماس میڈیا بڑے پیمانے پر لوگوں تک خبر اور اطلاعات پہنچانے کا غالباً سب سے طاقتور ہتھیار ہے اور اس میں رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ کوئی بھی تنظیم جو کسی ملک کے مرکزی ذرائع ابلاغ پر قابو پا لے، وہ لوگوں کے افعال اور زندگی گزارنے کے تصورات پر ناقابلِ یقین حد تک کنٹرول رکھتی ہے۔

صحافت کا سب سے اوّلین مقصد حقائق کی تلاش اور ان کی اطلاع دینا ہے لیکن واضح چیز یہ ہے کہ صحافی صرف خبروں کا احاطہ نہیں کرتے بلکہ ان سے جڑے ہوئے مفادات کو سمجھتے اور انہیں خبروں سے الگ بھی کرتے ہیں۔ ناؤم چومسکی روئے زمین پر موجود عظیم ترین دانشوروں میں سے ایک ہیں جو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہتے دکھائی دئیے کہ ماس میڈیا خبریں دینے کی بجائے پروپیگنڈا کرکے لوگوں کے دماغ کو کنٹرول کرنے کیلئے بنیادی ہتھیار ہے۔ یہ جاننا حیرت کا باعث ہے کہ میڈیا کی آزادی کے علمبردار جمہوری معاشروں میں بھی کس طرح ریاست کا ستون سمجھے جانے والے ذرائع ابلاغ کو غلط معلومات اور جھوٹی خبریں پھیلانے کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر اس تصور کی وضاحت مقصود ہو تو وہ میڈیا ہاؤسز کی ملکیت کے ارتکاز میں پوشیدہ ہے جس کے تحت کچھ افراد اور ادارے ذرائع ابلاغ کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ آمرانہ یا جمہوری ریاستوں میں میڈیا یا تو ریاست کی ملکیت ہوتا ہے یا پھر اس کی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں میڈیا کوریج ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اس سے میڈیا کی سالمیت داؤ پر لگ جاتی ہے اور ادارتی فیصلے متاثر ہوتے ہیں۔ امریکا میں 90 فیصد میڈیا ذرائع کی مالک صرف 5 کمپنیاں ہیں جن میں اے ٹی اینڈ ٹی (دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کام) جو وارنر میڈیا کی ملکیت رکھتی ہے جس میں سی این این، کوم کاسٹ (این بی سی یونیورسل)، ڈزنی (اے بی سی نیوز)، ویاکوم (سی بی ایس) اور حال ہی میں تشکیل پانے والی فوکس کارپوریشن (فوکس نیوز) شامل ہیں۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ خبروں کی صحافت چند ہاتھوں تک محدود ہے ، سو جب فوکس نیوز کسی چینی پانڈا پر توجہ مرکوز کرتا ہے یا جب بڑے پیمانے پرسفید فاموں کی جانب سے نسل پرستی پر مبنی قتل و غارت ہوتی ہے، یا سی این این اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹس کی بات کرتا ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ سب کچھ اپنی من مرضی کا ایجنڈا عوام پر تھوپنے کی بڑی منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے۔

آپ اگر یہ کہیں کہ آپ ٹی وی نہیں دیکھتے یا خبریں نہیں پڑھتے، میڈیا آپ کا پیچھا پھر بھی نہیں چھوڑتا۔ ہم جہاں کہیں بھی جائیں ذرائع ابلاغ سے گھرے ہوئے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے سے لے کر اپنی کار میں سفر تک ہمیں ایسے بے شمار پیغامات موصول ہوتے ہیں جو ہماری توجہ چاہتے ہیں۔ پیغامات کی مسلسل بھرمار کی جاتی ہے جس سے شعوری و غیر شعوری دونوں طرح کے پیغامات ہمارے ذہنوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہم یہ پیغامات نظر انداز کرنا چاہیں مگر ہمارا لاشعور ان پیغامات کو پہچان لیتا ہے اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایسے پیغامات بھیجنے پر خطیر رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک سمیت یہ رقم خرچ کرنے کی روایت دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔

حکومت اور خبری صحافت کے مابین ایک قریبی تعلق اور تنازعہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ حکومت عوام کے سامنے اچھی اور نیک پروین نظر آنے کیلئے میڈیا کنٹرول کرنا چاہتی ہے جس سے ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کنٹرول کون کرتا ہے؟ کیا میڈیا حقیقت میں آزاد ہے یا اس کے پیچھے کوئی ایجنڈا کام کرتا ہے؟ یہاں ایک پرانا قول صادق آتا ہے کہ اگر آپ بڑے بڑے جھوٹ بولیں اور انہیں دہراتے رہیں تو حتمی طور پر لوگ ان پر یقین کرنا شروع کردیں گے۔یہ وقت کی بہت بڑی سچائی ثابت ہوئی ہے۔ 

Related Posts