یوم پاکستان 2025 کے موقع پر جب مختلف شہریوں، صحافیوں اور نمایاں شخصیات کو سول ایوارڈز سے نوازا گیاتو سوشل میڈیا پر ایک تصویر بار بار سامنے آتی وہ تصویر تھی ارشد شریف شہید کی۔
ایک ایسا نام جس کا ذکر آتے ہی صحافت کی سچائی، بے خوفی اور قربانی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
ارشد شریف کی شہادت کو 2 سال سے زیادہ وقت گزر گیا مگر وہ زخم آج بھی تازہ ہیں جو اس کی المناک موت نے دیے تھے۔
ان کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، ان کے مداح آج بھی ان کی آواز کو یاد کرتے ہیں اور ان کے ساتھی آج بھی ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
وہ شخص جو ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ کھڑا رہا جس نے ظلم اور کرپشن کے خلاف اپنی آواز بلند کی، وہی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی۔
یوم پاکستان کے موقع پر جب مختلف صحافیوں کو اعزازات دیے گئے تو سوشل میڈیا پر ایک ہی سوال گونجتا رہا: “ارشد شریف کہاں ہے؟” وہ شخص جس نے اپنی جان کی قربانی دے دی جس نے حقائق کو بے نقاب کرنے کی قیمت چکائی، کیا اسے وہ مقام ملا جس کا وہ حق دار تھا؟
تصویر وائرل ہوئی، دل بھر آئے، آنکھیں نم ہو گئیں۔ ارشد شریف کی ایک تصویر میں وہی عزم جھلکتا ہے جو انہوں نے ہمیشہ اپنی صحافت میں دکھایا۔ ایک ایسا چہرہ جو بولتا تھا، جو سوال کرتا تھا، جو سچ کے لیے جیتا تھا اور بالآخر سچ کے لیے مارا گیا۔
ارشد شریف کی ماں آج بھی اپنے بیٹے کی راہ دیکھتی ہے اور ان کے بچے آج بھی اس باپ کو یاد کرتے ہیں جس کی شفقت چھین لی گئی۔ یہ صرف ایک صحافی کی موت نہیں تھی، یہ ایک خواب، ایک امید، اور سچائی کی روشنی کا بجھ جانا تھا۔